Thursday, January 4, 2018

مدینہ منورہ کے بچے


مسجد قبا میں نوافل و دعا سے فارغ ہوکر ہم لوگ نکلے‘ باہر مختلف اشیاء فروخت کرنےو الے لوگ کھڑےتھے‘ کچھ برقع پوش بدوخواتین، کچھ بوڑھے، کچھ بچے، کھجوریں، مصلے، تسبیح اور دوسری اشیاء لیے آوازیں لگارہے تھے، اس حقیر کے رفیق محترم رضوان بھائی نے ایک بچہ سے ایک درجن تسبیح کا پیکٹ خریدا جس کی قیمت اس نےسات ریال بتائی، برابر میں ایک دوسرا بچہ بھی کھڑا تھا وہ خوشامد اور ضدکرنےلگا کہ ایک درجن مجھ سے بھی خریدو‘ رضوان بھائی نےمعذرت کی‘ اس نےشکایت کی کہ پہلے میں نےآپ کو تسبیح کا بھاؤ بتایا تھا، آپ مجھ سےبھی خریدیں‘ مدینہ منورہ کےاکرام میں رضوان بھائی نے اس بچہ سےبھی تسبیحات خرید لیں‘ اور پندرہ ریال دس اور پانچ کےدو نوٹ ایک بچہ کو دئیے اور کہا دونوں تقسیم کرلینا‘ دو درجن تسبیح کی قیمت چودہ ریال بنتی تھی اس خیال سےکہ ہمارے ملکوں کی طرح ایک ریال کیلئے ان دونوں میںلڑائی نہ ہو‘ رضوان بھائی نے ان بچوں سے معلوم کیا، تم دونوں پندرہ ریال کیسے تقسیم کروگے؟ دونوں بیک زبان بڑی خوشی سےبولے سات سات دونوں لیں گے اور ایک بچے گا اس کو صدقہ کردیں گے ان بچوں کے اس جواب کے بعد دل کا عجیب سا حال ہوگیا اور جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے اپنے حال پر بڑی ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ شہر مقدس اس تاجدار مدینہ ﷺ کا مسکن اور شہر ہے جس نے دنیا کو ایسی سخاوت، ایثار اور استغنا سکھائی کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اس شہر کے بدو بچوں میں سخاوت، ایثار واستغنا کی یہ شان پائی جاتی ہے۔ ہمارا حال ایسا شرمناک ہے کہ ہم کوئی موقع خود غرضی‘ ہوس اور بخل کا گنوانا پسند نہیں کرتے‘ اس واقعہ کو سالوں ہوگئے‘ مگر جب بھی خیال و تصور میں اس شہرمحبوب کا سفرہوتا ہے‘ یہ واقعہ بھی یاد آجاتا ہے اور شرم سے منہ چھپانے کوجی چاہنے لگتا ہے کہ ہم غلاموں کی نسبت بھی اس معلم جودو سخا اور ایثار و استغنا سکھانے والے نبیوں کے سردار ﷺ سے ہے جنہوں نے پوری دنیا کے دل و دماغ اور اس کے رخ کو دنیا کی بے ثباتی اور نفع و نقصان کو آخرت کی یاد اور اصل نفع ونقصان کی طرف موڑ کر اس دنیا کے سارے اندھیروں کو دین اسلام اور اسلامی اصولوں کے نور میں بدل کر رکھ دیا تھا اور دنیا میں یہ مشہور ہوگیا کہ مسلمانوں سمجھ دار کیا پاگل و دیوانہ بھی اپنی چیزوں کو دوسروں کے گھر میں پھینکتا ہے اور غیرمسلموں کا پاگل دوسروں کی اشیاء پاگل پن میں اچھال کر اپنے گھر میں ڈالتا ہے‘ اس لیے کہ مومن و مسلم کی نگاہ میں نفع ہے تو آخرت کا‘ اور نقصان ہےتو آخرت کا، اس دنیا کے نفع کو وہ ایک متاع غرور اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا‘ وہ اس خواب کے نفع و نقصان کو حقیقی آخرت کی زندگی کے نفع و نقصان کے مقابلہ چھوڑتا اور قربان کردینا عقل مندی سمجھتا ہے جب کہ کافرو مشرک کی زندگی کی آخری منزل یہ دھوکہ کی دنیا ہی ہے

 ’جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی (ف۱۰) اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں‘‘دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور متاع غرور اور آخرت کی ابدالآباد حقیقی زندگی کا یقین ہی وہ سرمایہ اور زندگی کی چولوں کو‘ اور انسان کے دل و دماغ کو بنادینے والا وہ گوہر ہے جو مدینہ منورہ کے بے پڑھے بدو بچوں میں ایسا سخاوت و ایثار اور استغناء کا جذبہ بیدار کرنے والا ہے اور جس کو سکھانے کیلئے نبی رحمۃ اللعالمین ﷺ مبعوث ہوئے۔ کاش ہم بھی اس رسول رحمت ﷺ سے نسبت کی لاج رکھنے والے بنیں!

No comments:

Post a Comment