Wednesday, January 3, 2018

جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں


بلی کے بچے:۔
وہ اس وقت ریٹائرڈ ہیں‘ اس سےپہلے آرمی میں کرنل تھے‘ایک شریف اچھے انسان ہیں۔ پرانے طرز کی بنی حویلی جس میں آگ جلانے کی چمنی جو کہ دھواں باہر نکالتی ہے اب چونکہ رواج ہی ختم ہوگیا‘ گھروں میں کوئلہ جلانا‘ لکڑی جلانا‘ چمنی ویران پڑی ہوئی تھی‘ چمنی میں اوپر کی منزل میں کہیں توڑ پھوڑ ہوئی اور کوئی جگہ بن گئی‘ جس میں بلی نے بچے دے دئیے۔ انہوں نے سوچا کہ بلی کے بچے نامعلوم کیا کریں؟ بیوی نے بھی ان کی رائے کو مزید تقویت دی‘ اب رات یہ مشورہ ہوا کہ ہم صبح اٹھتے ہی گھریلو ملازم کو حکم دیں گے کہ ان بچوں کو اٹھا کر بلی سمیت باہر کہیں چھوڑ آئے‘ بس یہ مشورہ تھا‘ رات سو گئے‘ رات کو خواب دیکھا اور کسی کہنے والے نے کہا’’ خیال کرنا‘ اس بے زبان کو نہ چھیڑنا‘ ورنہ تمہارا باقی کچھ نہیں بچنا‘‘ وہ آواز ایسی ہیبت ناک تھی کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے‘ نیند میں ایک دم ڈر گئے‘ چیخ نکلی‘ اٹھے تو پسینہ پسینہ تھے‘ اس دن کے بعد انہوں نے اپنے گھر سے کسی بے زبان جانور کو نکالنے کے فیصلے ختم کردئیےاور واقعی پھر ہوا یہی کہ ان کے گھرمیں خیریں اور برکتیں ایسے آنا شروع ہوئیں جن مسائل کو یہ بہت زیادہ حل کرنا چاہتے تھے اور حل نہیں ہوپارہے تھے اور وہ سلوٹوں میں حل ہوگئے اور زندگی میں راحتیں‘ خوشیاں‘ ایسے لوٹ آئیں جو کبھی سوچی ہی نہیں تھیں۔ 
چڑیا کی بددعا:۔
بالکل اسی طرح کا واقعہ ایک بزرگ کا ہے انہیں فالج ہوا‘ مصلے پر بیٹھے ذکر تسبیحات کررہے تھے اور کئی عرصہ سے یہ تکلیف بھگت رہے تھے‘ تکلیف تھی کہ روز بڑھتی چلی جارہی تھی اور یہ اس تکلیف سے بالکل عاجز آگئے اور تھک گئے تھے‘ اسی دکھ اور تکلیف کے انداز میں بیٹھے اللہ سے شفایابی کی مناجات کررہے تھے کہ اچانک اونگھ آئی اور چڑیا کی چہچہانے کی آواز کانوں میں آئی اور چڑیا ہی کی آواز کی طرز پر ایک ایسی آواز آئی جس میں یہ پیغام دیا گیا کہ یاد ہے! کہ ہم نے تیرے گھر میں گھونسلہ بنایا تھا اور چونکہ تنکے تیرے گھر میں گرتے تھے اور تیرے گھر کی خوبصورتی اور صفائی میں حرج آتا تھا تو نے ہمارے گھونسلے کو توڑ کر بچوں کو اٹھا کر کہیں دور کھلی جگہ پر رکھ دیا اور وہ جگہ ایسی تھی جہاں ظالم جانور میرے بچوں کو نقصان پہنچا سکتا تھا اسی وقت میں دعاؤں میں لگ گئی اللہ نے ایک رحم دل کے دل میں ترس ڈالا اور اس نے وہ میرا گھونسلہ اٹھا کر کسی محفوظ جگہ رکھ دیا اس کیلئے تو میں نے دعا کردی اور تیرے لیے بددعا کردی۔ وہ ایک خطرناک لاعلاج بیماری او بے شمارمصائب میں مبتلا تھا وہ آنا فانا ان سے نکل گیا اور تو بہت راحتوں دولتوں خوشیوں اور صحت مند تھا بس آناً فاناً تجھے بیماری ہوگئی اور تیرا سب کچھ چھن گیا۔ یہ سب کچھ اس نے مصلے پربیٹھے اپنے کانوں سے سنا بات ختم ہوئی تو ایک دم آنکھ کھلی اس نے رونا شروع کردیا اور گڑگڑانا شروع کردیا اور اب احساس ہوا کہ کیا واقعی بے زبان دعا بھی دیتے ہیں اور بددعا بھی‘ میری ایک ملنے والے نہایت حلیم اور کریم مزاج اور بہت صالح شخص ہیں۔ فرمانے لگے: میں بہت سالہا سال کی آسوں اور مرادوں کے بعد حج پر حاضر ہوا چونکہ پہلی پہلی فلائٹ تھی اور رش بالکل نہیں تھا میں رات کے آخری پہر میں ایسے وقت میں گیا کہ کعبہ کا حطیم خالی تھا‘ میں نے وہاں دیکھا تو ایک بلی دونوں ہاتھوں کو زمین پر بچھائے اور اپنی گردن اور سر کو فرش سے لگائے سجدے میں پڑی تھی اسے میرے آنے کی کوئی خبر نہ ہوئی وہ بے سدھ تھی اور جیسے اللہ کے ساتھ رازو نیاز کررہی ہو۔شیخ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ جن کی وجہ سے سلسلہ نقشبندیہ ہے۔ اللہ سے فقیری ولایت اورقبولیت مانگتے رہتے تھے اپنے پیٹ پالنے کیلئے ایک چھوٹا سا پیشہ اور مزدوری کرتے تھے تاکہ رزق حلال میں معاونت رہے‘ ایک دفعہ حکم ہوا کہ ایک کتا نما مردار جانور ہے وہ گندگی میں لتھڑا ہوا ہے اور اسے ایک جگہ زخم ہے وہ بھوکا بھی ہے اور پیاسا بھی ہے۔ بہاؤالدین اس کی خدمت کرو‘ دل کی مرادیں پاجاؤ گے۔ شیخ بہاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ نے اس جانور کی خدمت کی‘ بہت عرصہ خدمت کرنے کے بعد جانور تندرست ہوگیا‘ ادھر وہ تندرست ہوا‘ اور ادھر انہیں بہت برکتوں اور رحمتوں کا خزانہ مل گیا آج ان کا نام دنیا میں روشن ہے۔ میرے دوست ایک قصائی سے گوشت لیتے ہیں‘ نمازی آدمی ہیں‘ میں بھی ایک دفعہ ان کے پاس گیا‘ بات چل رہی تھی بلی پر‘ کہنے لگے کہ بلی آتی اور میرا گوشت کھاجاتی‘ ایک دفعہ آئی تو میں نے اس کو زور سے دوڑتے ہوئے چھری ماری‘ چھری جاکر اس کو لگی اور وہیں تڑپ کر مرگئی دوسرے دن میرا ایک تندرست بکرا مرگیا۔ ایک چوہدری صاحب مجھے بتانے لگے میں نے ایک دفعہ ایک بلی کو مارا تو مجھے پندرہ دن بخار رہا۔قارئین! بے زبانوں کی دعائیں بھی اثر کرتی ہیں‘ اور بددعائیں بھی اثر کرتی ہیں۔ بس! دعائیں لیتے رہیں اور بددعاؤں سے بچتے رہیں۔

No comments:

Post a Comment