احمد نامی ایک بچہ سکول میں پڑھتا تھا اس کے اسلامیات کے ٹیچر نے اسے خواجہ الطاف حسین حالی کی مشہور نظم یاد کروائی۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
احمد جب بھی پڑھتا یوں پڑھتا:۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی برلانے والے
استاد نے کئی مرتبہ کہا: شاعر نے ’’والا‘‘ لکھا ہے تم بھی ایسے ہی پڑھا کرو مگر وہ اسی طرح پڑھتا ‘استاد نے سوچا شاید وہ اس غلطی کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرلے گا۔ سکول کی سالانہ تقریب منعقد ہوئی احمد نے جب وہ نعت سنائی تو پھر وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے پڑھا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنی صدارتی خطبے جہاں دیگر کچھ باتیں کہیں ساتھ یہ بھی کہا: آج کل استاد بچوں کا خیال نہیں کرتے یہ دیکھئے اسلامیات کے ٹیچر نے بچے کو نعت سکھائی اور بچے نے ’’والا‘‘ کی بجائے’’ والے‘‘ کہا‘ حالانکہ صحیح شعر میں لفظ والا ہے۔ استاد کو پتا ہی نہیں شاعر نے کیا لکھا اور لڑکا کیا پڑھ رہا ہے۔ اس طرح بھرے مجمع میں استاد کی سبکی ہوئی تو وہ اپنی صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوئے انہوں نے کہا: میں نے غلطی کی نشاندہی کئی بار کی تھی مگر اس بچے نے میری بات نہیں مانی اور مجھے سب کے سامنے رسوا کیا۔ یہ سال کی آخری تقریب تھی طلبہ اگلے سال کی کلاسوں میں چلے گئے احمد کی کلاس کے ابتدائی دن تھے ایک دن ان کے ریاضی کے ٹیچر نہیں آئے تھے ہیڈ ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ سٹاف روم میں اسلامیات کے استاد موجود ہیں ان کا پیریڈ خالی تھا انہوں نے کہا: آپ اس کلاس میں چلے جائیں‘ آج ان کے ٹیچر نہیں آئے آج تو داخلے کا پہلا دن ہے‘ ان کے پاس کتابیں بھی نہیں ہیں آپ ان سے پیارو محبت کی باتیں کرتے رہیں تو یہ شور نہیں کریں گے۔ چنانچہ اسلامیات کے ٹیچر آگئے اور کہنے لگے بھئی میں کچھ باتیں آپ کو سنائوں گا پھر آپ سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھوں گا آپ جواب دیجئے گا‘ ہمارا وقت اچھا گزر جائے گا‘ لڑکے تیار ہوگئے۔
پہلے استاد نے کچھ باتیں بتائیں پھر ان بچوں سے چھوٹے چھوٹے سوالات کرنا شروع کردیئے‘ کسی سے کچھ پوچھا‘ کسی سے کچھ ‘جب احمد کی باری آئی تو استاد صاحب نے کہا: ہمارے نبیﷺ کا نام کیا ہے؟ احمد تم بتائو! احمد اٹھ کھڑا ہوگیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا‘ استاد نے پھر سوال دہرایا یہ پھر بھی چپ رہا۔ استاد نے دل میں سوچا اس نے پہلے بھی میری بے عزتی کروائی تھی اب پھر پوری کلاس کے سامنے پوچھ رہا ہوں یہ جواب نہیں دیتا‘ لگتا ہے یہ لڑکا بہت ضدی قسم کا ہے۔ استاد نے ڈنڈا ہاتھ میں لہرایا اور قریب آکر کہا: تمہیں ہمارے نبیﷺ کا نام آتا ہے؟ احمد نے سر ہلا کر کہا جی ہاں! بتاتے کیوں نہیں؟ احمد چپ ہوگیا۔ استاد نے پھر کہا: میں تمہاری پٹائی کروں گا تم نام کیوں نہیں بتاتے؟ احمد اب بھی خاموش رہا‘ ساری کلاس کے بچے حیران تھے کہ یہ تو اتنا لائق ہے بتاکیوں نہیں دیتا۔ استاد کو غصہ آگیا‘ بار بار پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا آخر استاد نے اسے دو چار ڈنڈے لگائے۔ احمد کو اپنی لیاقت کی وجہ سے کبھی سکول میں مار نہیں پڑی تھی یہ اس کی پہلی مرتبہ کلاس میں پٹائی ہوئی تو وہ رونے لگا۔ آنسو بہنے لگے‘ اتنے میں تفریح کی گھنٹی بجی‘ استاد کہنے لگے: اچھا میں اگلے پیریڈ میں آرہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں تم کیسے نام نہیں بتاتے‘ میں تمہاری ضد کو توڑ کر دکھائوں گا۔ استاد غصے میں یہ کہہ کر چلے گئے۔ بچے بھی اٹھ گئے لیکن کچھ بچے ایسے تھے جو اس کے دوست تھے وہ اس کے قریب بیٹھ گئے‘ احمد بلک بلک کر رو رہا تھا آنسو پونچھ رہا تھا مگر کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد احمد باہر نکلا اور منہ ہاتھ دھوکر آگیا۔ تفریح کے بعد وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا استاد دوبارہ آگئے‘ اپنا ڈنڈا لہراتے ہوئے انہوں نے کہا: احمد کھڑے ہوجائو! احمد کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے پوچھا بتائو ہمارے نبیﷺ کا نام کیا ہے؟ احمد نے انتہائی ادب اوراحترام اور سر جھکا کرکہا حضرت محمدﷺ استاد خوش ہوگئے۔ کہنے لگے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ احمد پھر خاموش رہا‘ اب استاد سمجھ گئے کہ اس کے پیچھے کوئی راز ہے۔ استاد قریب آئے احمد کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا پھر بولے تم میرے اچھے شاگرد ہو‘ میرے بیٹے کی مانند ہو‘ میں نے تم سے کہا تھا وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا پڑھنا تم نے وہاں بھی والے پڑھا تھا اور اب بھی پہلے بار بار پوچھنے پر بھی تم نے نام نہیں بتایا تھا اور اب بتادیا آخر وجہ کیا ہے؟ جب احمد کو پیار ملا تو اس نے پھر بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ استاد نے تسلی دی بیٹے رو نہیں بتائو وجہ کیا ہے؟ احمد آنسو خشک کرتے ہوئے کہنے لگا: اصل بات یہ ہے کہ میرے ابو دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں انہیں نبی کریمﷺ سے بہت محبت تھی وہ مجھے نصیحت کیا کرتے تھے بیٹا تم کبھی بھی حضورﷺ کا نام بے ادبی سے نہیں لینا اس لئے والا کے بجائے میں نے والے کہا یعنی:۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی برلانے والے
یہ سن کر ندامت کے مارے استاد صاحب کا پسینہ بہنے لگا‘ پھر انہوں لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا: اور تم نے حضورﷺ کا نام کیوں نہیں بتایا؟ میرے ابو مجھے کہا کرتے تھے بیٹا نبی کریمﷺ کا نام کبھی بھی بے وضو نہیں لینا۔ میرا اس وقت وضو نہیں تھا‘ آپ کی مار میں نے کھالی آپ میری ہڈیاں بھی توڑدیتے تو میں برداشت کرلیتا میں مار تو کھالیتا لیکن اپنے آقا ﷺ کا نام بے وضو نہ لیتا۔ اب میں تفریح کے دوران وضو کرکے آیا ہوں آپ نے پوچھا میں نے اپنے محبوبﷺ کا نام بتادیا۔ یہ سن کر استاد صاحب کی آنکھیں بھر آئیں پوری کلاس پر بھی سکتہ طاری تھا۔
No comments:
Post a Comment