Thursday, January 4, 2018

شہید فوجی کے چہرے پر نور ہی نور


میں ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں اور1971 کی جنگ کے دوران میں سیالکوٹ چھاؤنی میں سروس کررہا تھا ایک دن ظہر کے وقت میں اپنے جے سی او میں بیٹھا ہوا تھا کہ 19 لانسر کا ایک جوان میرے کمرے میں داخل ہوا اور مجھے سیلوٹ کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ سر آپ کو ہمارے نائب رسالدار ملک خان محمد صاحب یاد کررہے ہیں جو ابھی ابھی اپریشنل ایریا سے ایک شہید کی میت لے کر آئے ہیں۔ یہ نائب رسالدار صاحب میرے گاؤں کےرہنے والے تھے اورمیرے دوست بھی تھے۔ جنگ کے دنوں میں ہم لوگ ہروقت وردی میں ہوتے تھے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ 19 لانسر کی جے سی او میں تقریباً پندرہ بیس گز کے فاصلہ پر تھی درمیان میں صرف ایک سڑک تھی اس کو کراس کرکے میں فوراً ملک خان محمدصاحب کے پاس پہنچ گیا۔ ان کو سیلوٹ کیا اور ہاتھ ملایا۔ اس وقت چند جوان ایک گاڑی سے میت کی سٹریچر اتار رہے تھے انہوں نے اس میت کو برآمدے میں ایک چارپائی پر رکھ دیا۔ میں نے خان محمدصاحب سے پوچھا کہ سر یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے نے کہا کہ پہلے آپ چہرہ دیکھ لیں پھر میں تفصیل بتاتا ہوں۔ انہوں نے میت کے چہرہ سے کمبل اٹھایا تو اس کے نیچے سے میں نے ایک ابدی نیند سوئے ہوئے جوان کو دیکھا جس کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا تھا‘ بال بکھرے ہوئے تھے اور پر مورچوں کی مٹی کا گردو غبار تھوڑا تھوڑا نظر آرہا تھا اور ہونٹ ایسے لگ رہے تھے جیسے ہلکی ہلکی مسکراہٹ محسوس ہورہی ہو‘ میں نےگالوں پر ویسے ہی ہاتھ لگادیا میت مجھے گرم محسوس ہورہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس سوار کی شہادت تقریباً پانچ یا چھ گھنٹے پہلے ہوئی تھی بعد میں جناب خان محمد صاحب نے میرے اس گمان کی تصدیق بھی کردی تھی۔ میت کا چہرہ اتنا پرسکون تھا اس سے مجھے نور کی ایسی جھلک نظر آرہی تھی کہ میں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کسی میت کا چہرہ اس طرح پرسکون نہیں دیکھا تھا۔ دل کررہا تھا کہ بس اس پرنور چہرے کو دیکھتا رہوں‘ اس پر اترتے انوارات کا مشاہدہ کرتا رہوں میں چاہ کر بھی اس پرنور مکھڑے سے نظر نہیں ہٹاپارہا تھا۔ ملک خان محمد صاحب نے مجھے آواز دی تو میں چونک اٹھا‘ مڑ کر ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا ادھر میرے پاس آجائیں میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں میں حیران پریشان کرسی پربیٹھ گیا۔ ان کے چہرے کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور مسلسل کئی راتوں کی بے آرامی کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے اور ساتھ ہی میت کی طرف دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیر رہے تھے انہوں نے کہا کہ یہ جوان میرے ٹروپ کا تھا اس کا گریڈ تو ڈرائیور تھا لیکن پچھلے مسلسل دو دنوں سے اگلے مورچوں میں اتنی دلیری اور مستعدی سے ایمونیشن پہنچا رہا تھا کہ اس کی کارکردگی کی بدولت ہمارے جوان دشمن کی یلغار کو روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سوار محمد حسین شہید نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے جوانوں کی ایسی مدد کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کوشش کے دوران دشمن کا ایک برسٹ اس کوآلگا اور یہ شہید ہوگیا اس شہید کی کارکردگی اور بہادری کو دیکھ کر ہمارے سی او صاحب نے اس کی بہادری کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوا دی ہے اور ابھی ہمارے سی او صاحب اور بریگیڈکمانڈر صاحب آنے والے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس سوار کو کوئی اعلیٰ فوجی اعزاز مل جائے چنانچہ واقعی ہی سوار محمد حسین شہید کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز یعنی ’’نشان حیدر‘‘سے نوازا گیا۔ یہ تھا میرا آنکھوں دیکھا واقعہ۔

No comments:

Post a Comment