Thursday, January 4, 2018

نفسیاتی گھریلو الجھنیں اور علاج


سوال:۔
ناکامی کا خوف:۔
انٹر میں داخلہ لینے کے بعد میں نے راتوں کو جاگ کر پڑھنا شروع کردیا۔ گھر والے مستقل مجھے احساس دلاتے کہ اگر میں نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس نہ کیا تو میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملے گا۔ میں بھی سوچتی کہ مستقبل تاریک نہیں کرنا‘ اب پڑھنا ہے۔ میں نیند بھگانے کیلئے چائے اور کافی کثرت سے استعمال کرتی‘ جیسے تیسے امتحان دے دیا۔ پاس بھی ہوگئی لیکن اتنے نمبر نہ آئے کہ داخلہ ہوجاتا۔ اب گھر والے شادی کا ذکر کررہے ہیں میں اس پر بالکل بھی تیار نہیں۔ عجیب قسم کا خوف ہے‘ ساری ساری رات جاگ کر گزارتی ہوں‘ گھبراہٹ ہوتی ہے‘ نیا گھر‘ نئے لوگ اور وہ اجنبی شخص جس کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ ہوگا پتا نہیں کیسا ہو؟ کہیں میری زندگی ناکام نہ ہوجائے‘ اس سے بہتر ہے میں خود کو ختم کرلوں۔ (ج۔ جگہ نامعلوم)
جواب:۔
 بے خوابی انسان کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے‘ مسلسل جاگنے سے گھبراہٹ‘ پژمردگی کی کیفیت اور جلد مایوس ہوجانے کی عادت کے ساتھ چڑچڑاپن بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ امتحان میں اچھے نمبر تو آگئے لیکن آپ نے داخلہ نہ ہونے کی وجہ سے خود کو ناکام سمجھ لیا۔ اب یہ خوف شادی کے حوالے سے بھی پیدا ہورہا ہے۔ اچھے نمبروں سے کامیابی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں اسی طرح شادی کے ناکام ہوجانے کا ڈر اتنا نہ ہوکہ خود کو ختم کرنے کا خیال غالب آجائے۔ مثبت سوچیں‘ اکثر لڑکیوں کو نئے لوگوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی پڑتی ہے‘ شادی شدہ ایسی لڑکیوں سے ملیں جو کامیاب اور خوشحال زندگی گزار رہی ہوں تاکہ خیالات میں مثبت تبدیلی آئے۔
سوال:۔
 شادی کیوں نہیں کی؟
میری شادی 35 سال کی عمر میں ہوئی‘ دس سال ہوگئے‘ اس وقت بیٹا 8 سال کا ہے‘ اس کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ میں نے 25 سال کی عمر میں شادی کیوں نہیں کی۔ بیٹا جوان ہوتا تو کتنا اچھا تھا‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بڑی عمر تک کس طرح توجہ دے سکوں گا۔ یہ سوچ کر تھک جاتا ہوں‘ رشتہ دار اور دوست بھی اس بات کا احساس دلاتے ہیں‘ مایوسیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ (محمد عمر‘ لاہور)
جواب:۔
شادی دیر سے ہویا جلدی‘ بچے سب کے بڑے ہوجاتے ہیں۔ عمر کی پروانہ کریں بچوں کی تعلیم اور تربیت اچھی ہونی ضروری ہے‘ مثبت انداز میں سوچا کریں اور دوسروں کی بھی ایسی باتوں پر توجہ نہ دیں جو مایوسی کا شکار بنائیں بلکہ کسی سے ملتے ہوئے خوشی کا اظہار کریں۔ آپ کے مثبت رویے کا بچوں پر بھی اچھا اثر ہوگا۔ اگر مایوسی بڑھتی گئی تو بچے بھی بہت جلد مایوس ہونا سیکھ جائیں گے۔
سوال:۔ 
 بیٹی ہروقت آئینہ دیکھتی رہتی ہے:۔
میری بیٹی ہر وقت اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ کبھی اس کو اپنی اصلی شکل نظر آتی ہے جو بہت خراب ہے اور بعض اوقات وہ ایسا چہرہ دیکھتی ہے جس کو خوبصورت کہا جاسکتا ہے۔ اس کو آئینے میں اپنا چہرہ مختلف انداز سے نظر آتا ہے‘ یہ ہماری اکلوتی بیٹی ہے جو کچھ وہ کہتی ہے میں پوری توجہ سے سنتی ہوں‘ مسئلہ یہ ہے کہ کسی گوری چٹی لڑکی کو دیکھ کرمرعوب ہوجاتی ہے اور کہتی ہے کہ میری جلد بدلوادیں‘ پھر ہم سب ہی اداس ہوجاتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنی دولت نہیں۔ ایک روز میری بہن نے کہا کہ اس کے ساتھ تو نفسیاتی مسئلہ ہے اس پر ہم لوگوں کو بہت غصہ آیا کیونکہ ہم کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ہماری بیٹی کو کوئی نفسیاتی مریضہ یا پاگل کہے کیونکہ وہ بہت اچھی باتیں کرتی ہے۔ پڑھنے میں ٹھیک ہے‘ دیکھنے میں اچھی نظر آتی ہے بس یہ آئینے میں چہرہ دیکھ کر پریشان ہونے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ (عائشہ‘ ملتان)
 جواب:۔
 یہ آپ کی بیٹی کا ہی مسئلہ نہیں‘ اکثر لڑکیاں یہ سوچتی ہیں کہ وہ بہت لمبی ہیں یا چھوٹی یا موٹی یا ان کے بال اچھے نہیں‘ رنگ گورا نہیں‘ نقوش موٹے ہیں وغیرہ اہم یہ ہے کہ گھر کے دیگر لوگ خاص طور پر ماں اس رویے پر کیسا رد عمل کرتی ہیں۔ بیٹی آئینے میں چہرہ دیکھتی ہے تو آپ اس کے اس عمل کو نظر انداز کریں بلکہ اس کو کوئی مصروفیت دیں۔ جو لڑکیاں گھر کے کاموں‘ تعلیم یا جاب میں وقت گزارتی ہیں ان کے پاس اپنے بار ےمیں مستقل منفی سوچنے کا وقت نہیں رہتا بلکہ ذمہ داریوں کی ادائیگی سکون مہیا کرتی ہے۔
سوال:۔ 
 معدے میں تکلیف اور ٹیسیں:۔
کئی ماہ سے میرے معدے میں تکلیف ہے کبھی درد اٹھتا ہے تو کبھی ٹیسیں۔ دوستوں نے سگریٹ پینے کا مشورہ دیا۔ اس سے چند روز فائدے کا احساس ہوا پھر وہی حالت ہوگئی۔ البتہ رات کو یہ تکلیف نہیں ہوتی‘ فون پر دوستوں سے اچھے موڈ میں باتیں کرتا ہوں‘ کوئی کہہ نہیں سکتا میں بیمار ہوں‘ صبح ہوتے ہی بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوتا ہوں‘ کالج میں پڑھنے کی وجہ سے بڑی بہن کے گھر رہ رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ ان کو مجھ سے تکلیف پہنچے۔ (شرجیل خان‘پشاور)
جواب:۔
 ماہرین کے مطابق مختلف قسم کے درد سے بچنے کیلئے زندگی بسر کرنے کے صحت مند طریقے اپنانے چاہئیں۔ نشہ آور اشیاء ادویات اور تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک سے پرہیز کریں‘ ہر روز رات کو ایک مقررہ وقت تک بھرپور نیند لیں‘ اس کے علاوہ ورزش کو معمول بنالیں۔
سوال:۔ 
 وہ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے:۔
میرے بیٹے کی عمر 18 سال ہے‘ پڑھنے میں ٹھیک ہے‘ پہلے بہت اچھا تھا‘ اس کے دوستوں نے بتایا ہے کہ وہ کسی لڑکی کو پسند کرنے لگا ہے‘ میں نے بھی محسوس کیا کہ اب وہ اکثر کھویا کھویا سار رہنے لگا‘ اردگرد کہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی‘ کوئی آئے کوئی جائے وہ اپنی ذات میں مگن رہتا ہے‘ موبائل فون پر مسلسل بات کرتا نظر آتا ہے۔ میں نے تو اسے اعلیٰ تعلیم دلوانی چاہی تھی‘ یہ سب کیا ہوگیا؟ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ (عفت کریم‘ لاہور) 
جواب:۔
 ایسا عموماً ان لڑکوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے والدین سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے‘ اپنے مسائل اور معاملات کو اپنے تک رکھتے ہیں یا پھر دوستوں میں زیر بحث لاتے ہیں‘ دوست بھی انہی کی عمروں کے ناتجربہ کار لڑکے غلط مشورے دے ڈالتے ہیں بیٹے سے نرمی اور ہمدردی کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں افسردگی کی یہ علامت بہت عام ہے۔اس کیفیت کو گفتگو سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

نبی اکرم کا غیرمسلوں سے برتاؤ


غیرمسلموں کے برتن میں کھانا :سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا: ہم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کےساتھ رہتے ہیں اور وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے اور برتنوں میں شراب پیتے ہیں(آیا انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے؟) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تمہیں دوسرے (پاک و صاف) برتن ملیں تو ان میں کھاؤ پیو لیکن اگر نہ مل سکیں تو انہیں پانی کے ساتھ دھولو اور ان میں کھاپی سکتےہو‘‘ (ابوداؤد 3839) سید عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک طویل حدیث بیان کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دوران سفر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پانی کی ضرورت ہوئی لیکن پانی موجود نہیں تھا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو تلاش میں بھیجا۔ انہوں نے چلتے چلتے ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر پانی کے دو مکشیزے رکھ کر آرہی تھی، اس سے پانی ملنے کی جگہ کا پوچھا تو اس نے بتایا میں کل اس وقت وہاں سے چلی تھی اور آج یہاں تک پہنچی ہوں۔ اس عورت کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جایا گیا۔ آپ ﷺ نے) اس کے مشکیزوں کا اوپر والا منہ بند کرکے نیچے کے سوراخ ایک برتن میں کھول دیے اور صحابہ کو پانی لینے کی آواز لگادی گئی۔ سب نے پانی پیا۔ جانوروں کو پلایا اور سب سیر ہوگئے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی چنانچہ جب اس کے مشکیزوں کا منہ بند کردیا گیا تو ان میں پانی پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس عورت کیلئے کھانے کی کچھ چیزیں جمع کرنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمدہ کھجوریں‘ آٹا اور ستو جمع کرکے ایک گٹھڑی باندھ کر اس کے حوالے کردی۔ مسلمان اس عورت کے خاندان کو کچھ نہ کہا کرتے جبکہ اردگرد کے علاقوں میں مشرکین پر حملہ کرتے رہتے۔ ایک دن وہ عورت اپنے گھر والوں کو کہنے لگی: میرا خیال ہے یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں تو کیا تمہیں اسلام کی طرف رغبت ہے؟ قوم نے اس عورت کی بات مان لی اور سب مسلمان ہوگئے۔ (البخاری 344)

ناف کا علاج


یہ ایسی تکلیف ہے جس کا ڈاکٹری علاج آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ اگر کسی کی ناف ٹل جائے تو ناف کی جگہ پر شہادت کی انگلی رکھ کر لاتعداد مرتبہ پڑھیں للہ الملک الحقدم کردیں اللہ کے اس نام کی برکت سے ناف اپنی جگہ پر آجائے گی اگر محسوس ہو کہ ناف اپنی جگہ پر نہیں آئی ہے تو دو تین مرتبہ دم کریں۔ بہت ہی آزمودہ ہے۔ یہ میں سینکڑوں لوگوں پر آزما چکا ہوں

میری ہڈیاں توڑ دیں بےوضو آقا کا نام نہ لوں گا


احمد نامی ایک بچہ سکول میں پڑھتا تھا اس کے اسلامیات کے ٹیچر نے اسے خواجہ الطاف حسین حالی کی مشہور نظم یاد کروائی۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی برلانے والا احمد جب بھی پڑھتا یوں پڑھتا:۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے مرادیں غریبوں کی برلانے والے استاد نے کئی مرتبہ کہا: شاعر نے ’’والا‘‘ لکھا ہے تم بھی ایسے ہی پڑھا کرو مگر وہ اسی طرح پڑھتا ‘استاد نے سوچا شاید وہ اس غلطی کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرلے گا۔ سکول کی سالانہ تقریب منعقد ہوئی احمد نے جب وہ نعت سنائی تو پھر وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے پڑھا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنی صدارتی خطبے جہاں دیگر کچھ باتیں کہیں ساتھ یہ بھی کہا: آج کل استاد بچوں کا خیال نہیں کرتے یہ دیکھئے اسلامیات کے ٹیچر نے بچے کو نعت سکھائی اور بچے نے ’’والا‘‘ کی بجائے’’ والے‘‘ کہا‘ حالانکہ صحیح شعر میں لفظ والا ہے۔ استاد کو پتا ہی نہیں شاعر نے کیا لکھا اور لڑکا کیا پڑھ رہا ہے۔ اس طرح بھرے مجمع میں استاد کی سبکی ہوئی تو وہ اپنی صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوئے انہوں نے کہا: میں نے غلطی کی نشاندہی کئی بار کی تھی مگر اس بچے نے میری بات نہیں مانی اور مجھے سب کے سامنے رسوا کیا۔ یہ سال کی آخری تقریب تھی طلبہ اگلے سال کی کلاسوں میں چلے گئے احمد کی کلاس کے ابتدائی دن تھے ایک دن ان کے ریاضی کے ٹیچر نہیں آئے تھے ہیڈ ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ سٹاف روم میں اسلامیات کے استاد موجود ہیں ان کا پیریڈ خالی تھا انہوں نے کہا: آپ اس کلاس میں چلے جائیں‘ آج ان کے ٹیچر نہیں آئے آج تو داخلے کا پہلا دن ہے‘ ان کے پاس کتابیں بھی نہیں ہیں آپ ان سے پیارو محبت کی باتیں کرتے رہیں تو یہ شور نہیں کریں گے۔ چنانچہ اسلامیات کے ٹیچر آگئے اور کہنے لگے بھئی میں کچھ باتیں آپ کو سنائوں گا پھر آپ سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھوں گا آپ جواب دیجئے گا‘ ہمارا وقت اچھا گزر جائے گا‘ لڑکے تیار ہوگئے۔ پہلے استاد نے کچھ باتیں بتائیں پھر ان بچوں سے چھوٹے چھوٹے سوالات کرنا شروع کردیئے‘ کسی سے کچھ پوچھا‘ کسی سے کچھ ‘جب احمد کی باری آئی تو استاد صاحب نے کہا: ہمارے نبیﷺ کا نام کیا ہے؟ احمد تم بتائو! احمد اٹھ کھڑا ہوگیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا‘ استاد نے پھر سوال دہرایا یہ پھر بھی چپ رہا۔ استاد نے دل میں سوچا اس نے پہلے بھی میری بے عزتی کروائی تھی اب پھر پوری کلاس کے سامنے پوچھ رہا ہوں یہ جواب نہیں دیتا‘ لگتا ہے یہ لڑکا بہت ضدی قسم کا ہے۔ استاد نے ڈنڈا ہاتھ میں لہرایا اور قریب آکر کہا: تمہیں ہمارے نبیﷺ کا نام آتا ہے؟ احمد نے سر ہلا کر کہا جی ہاں! بتاتے کیوں نہیں؟ احمد چپ ہوگیا۔ استاد نے پھر کہا: میں تمہاری پٹائی کروں گا تم نام کیوں نہیں بتاتے؟ احمد اب بھی خاموش رہا‘ ساری کلاس کے بچے حیران تھے کہ یہ تو اتنا لائق ہے بتاکیوں نہیں دیتا۔ استاد کو غصہ آگیا‘ بار بار پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا آخر استاد نے اسے دو چار ڈنڈے لگائے۔ احمد کو اپنی لیاقت کی وجہ سے کبھی سکول میں مار نہیں پڑی تھی یہ اس کی پہلی مرتبہ کلاس میں پٹائی ہوئی تو وہ رونے لگا۔ آنسو بہنے لگے‘ اتنے میں تفریح کی گھنٹی بجی‘ استاد کہنے لگے: اچھا میں اگلے پیریڈ میں آرہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں تم کیسے نام نہیں بتاتے‘ میں تمہاری ضد کو توڑ کر دکھائوں گا۔ استاد غصے میں یہ کہہ کر چلے گئے۔ بچے بھی اٹھ گئے لیکن کچھ بچے ایسے تھے جو اس کے دوست تھے وہ اس کے قریب بیٹھ گئے‘ احمد بلک بلک کر رو رہا تھا آنسو پونچھ رہا تھا مگر کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد احمد باہر نکلا اور منہ ہاتھ دھوکر آگیا۔ تفریح کے بعد وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا استاد دوبارہ آگئے‘ اپنا ڈنڈا لہراتے ہوئے انہوں نے کہا: احمد کھڑے ہوجائو! احمد کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے پوچھا بتائو ہمارے نبیﷺ کا نام کیا ہے؟ احمد نے انتہائی ادب اوراحترام اور سر جھکا کرکہا حضرت محمدﷺ استاد خوش ہوگئے۔ کہنے لگے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ احمد پھر خاموش رہا‘ اب استاد سمجھ گئے کہ اس کے پیچھے کوئی راز ہے۔ استاد قریب آئے احمد کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا پھر بولے تم میرے اچھے شاگرد ہو‘ میرے بیٹے کی مانند ہو‘ میں نے تم سے کہا تھا وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا پڑھنا تم نے وہاں بھی والے پڑھا تھا اور اب بھی پہلے بار بار پوچھنے پر بھی تم نے نام نہیں بتایا تھا اور اب بتادیا آخر وجہ کیا ہے؟ جب احمد کو پیار ملا تو اس نے پھر بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ استاد نے تسلی دی بیٹے رو نہیں بتائو وجہ کیا ہے؟ احمد آنسو خشک کرتے ہوئے کہنے لگا: اصل بات یہ ہے کہ میرے ابو دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں انہیں نبی کریمﷺ سے بہت محبت تھی وہ مجھے نصیحت کیا کرتے تھے بیٹا تم کبھی بھی حضورﷺ کا نام بے ادبی سے نہیں لینا اس لئے والا کے بجائے میں نے والے کہا یعنی:۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے مرادیں غریبوں کی برلانے والے یہ سن کر ندامت کے مارے استاد صاحب کا پسینہ بہنے لگا‘ پھر انہوں لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا: اور تم نے حضورﷺ کا نام کیوں نہیں بتایا؟ میرے ابو مجھے کہا کرتے تھے بیٹا نبی کریمﷺ کا نام کبھی بھی بے وضو نہیں لینا۔ میرا اس وقت وضو نہیں تھا‘ آپ کی مار میں نے کھالی آپ میری ہڈیاں بھی توڑدیتے تو میں برداشت کرلیتا میں مار تو کھالیتا لیکن اپنے آقا ﷺ کا نام بے وضو نہ لیتا۔ اب میں تفریح کے دوران وضو کرکے آیا ہوں آپ نے پوچھا میں نے اپنے محبوبﷺ کا نام بتادیا۔ یہ سن کر استاد صاحب کی آنکھیں بھر آئیں پوری کلاس پر بھی سکتہ طاری تھا۔

شہید فوجی کے چہرے پر نور ہی نور


میں ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں اور1971 کی جنگ کے دوران میں سیالکوٹ چھاؤنی میں سروس کررہا تھا ایک دن ظہر کے وقت میں اپنے جے سی او میں بیٹھا ہوا تھا کہ 19 لانسر کا ایک جوان میرے کمرے میں داخل ہوا اور مجھے سیلوٹ کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ سر آپ کو ہمارے نائب رسالدار ملک خان محمد صاحب یاد کررہے ہیں جو ابھی ابھی اپریشنل ایریا سے ایک شہید کی میت لے کر آئے ہیں۔ یہ نائب رسالدار صاحب میرے گاؤں کےرہنے والے تھے اورمیرے دوست بھی تھے۔ جنگ کے دنوں میں ہم لوگ ہروقت وردی میں ہوتے تھے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ 19 لانسر کی جے سی او میں تقریباً پندرہ بیس گز کے فاصلہ پر تھی درمیان میں صرف ایک سڑک تھی اس کو کراس کرکے میں فوراً ملک خان محمدصاحب کے پاس پہنچ گیا۔ ان کو سیلوٹ کیا اور ہاتھ ملایا۔ اس وقت چند جوان ایک گاڑی سے میت کی سٹریچر اتار رہے تھے انہوں نے اس میت کو برآمدے میں ایک چارپائی پر رکھ دیا۔ میں نے خان محمدصاحب سے پوچھا کہ سر یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے نے کہا کہ پہلے آپ چہرہ دیکھ لیں پھر میں تفصیل بتاتا ہوں۔ انہوں نے میت کے چہرہ سے کمبل اٹھایا تو اس کے نیچے سے میں نے ایک ابدی نیند سوئے ہوئے جوان کو دیکھا جس کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا تھا‘ بال بکھرے ہوئے تھے اور پر مورچوں کی مٹی کا گردو غبار تھوڑا تھوڑا نظر آرہا تھا اور ہونٹ ایسے لگ رہے تھے جیسے ہلکی ہلکی مسکراہٹ محسوس ہورہی ہو‘ میں نےگالوں پر ویسے ہی ہاتھ لگادیا میت مجھے گرم محسوس ہورہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس سوار کی شہادت تقریباً پانچ یا چھ گھنٹے پہلے ہوئی تھی بعد میں جناب خان محمد صاحب نے میرے اس گمان کی تصدیق بھی کردی تھی۔ میت کا چہرہ اتنا پرسکون تھا اس سے مجھے نور کی ایسی جھلک نظر آرہی تھی کہ میں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کسی میت کا چہرہ اس طرح پرسکون نہیں دیکھا تھا۔ دل کررہا تھا کہ بس اس پرنور چہرے کو دیکھتا رہوں‘ اس پر اترتے انوارات کا مشاہدہ کرتا رہوں میں چاہ کر بھی اس پرنور مکھڑے سے نظر نہیں ہٹاپارہا تھا۔ ملک خان محمد صاحب نے مجھے آواز دی تو میں چونک اٹھا‘ مڑ کر ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا ادھر میرے پاس آجائیں میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں میں حیران پریشان کرسی پربیٹھ گیا۔ ان کے چہرے کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور مسلسل کئی راتوں کی بے آرامی کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے اور ساتھ ہی میت کی طرف دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیر رہے تھے انہوں نے کہا کہ یہ جوان میرے ٹروپ کا تھا اس کا گریڈ تو ڈرائیور تھا لیکن پچھلے مسلسل دو دنوں سے اگلے مورچوں میں اتنی دلیری اور مستعدی سے ایمونیشن پہنچا رہا تھا کہ اس کی کارکردگی کی بدولت ہمارے جوان دشمن کی یلغار کو روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سوار محمد حسین شہید نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے جوانوں کی ایسی مدد کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کوشش کے دوران دشمن کا ایک برسٹ اس کوآلگا اور یہ شہید ہوگیا اس شہید کی کارکردگی اور بہادری کو دیکھ کر ہمارے سی او صاحب نے اس کی بہادری کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوا دی ہے اور ابھی ہمارے سی او صاحب اور بریگیڈکمانڈر صاحب آنے والے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس سوار کو کوئی اعلیٰ فوجی اعزاز مل جائے چنانچہ واقعی ہی سوار محمد حسین شہید کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز یعنی ’’نشان حیدر‘‘سے نوازا گیا۔ یہ تھا میرا آنکھوں دیکھا واقعہ۔

مناقب اہل بیت اطہار


حضرت حبہ عرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کومنبر پر مسکراتے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اس سے زیادہ مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دانت مبارک نظر آنےلگے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا:’’ مجھے اپنے والد محترم ابوطالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس تشریف لائےجبکہ میں حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا اور ہم وادی نخلہ میں نماز ادا کررہے تھے پس انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! آپ کیا کررہے ہیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: جو کچھ آپ کررہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے والد محترم کی بات پر مسکرادئیے اور پھر فرمایا: اے اللہ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی ﷺ کے‘ یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا: تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔‘‘ (اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے)

مستقبل کے روشن خاکوں میں رنگ بھرئیے


ایک ماہر نفسیات نے کہا کہ ہر انسان کو تنہائی میں پریشان کن حالات پیش آتے ہیں اور وہ اداس ہوجاتا ہے میں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ میں تنہائی کے اوقات میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی ذات کےبارے میں کچھ نہ سوچوں اور دوسرے لوگوں اور چیزوں کے بارے میں سوچتا رہوں۔ میں نہ ماضی کے عمدہ مواقع سے محرومی یا انہیں گنوانے کے باعث پر غور کرتا ہوں بلکہ میں تنہائی کے اوقات میں مستقبل کے اپنے خاکوں میں رنگ بھرتا رہتا ہوں جس سے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ساتھ ہی میں مستقبل کے اس روشن خاکے کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے کوشش بھی کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ میں آئندہ کیلئے کاموں کو محنت اور لگن سے انجام دینے لگتا ہوں اور اس طرح میری زندگی میں امید،روشنی اور خوشی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں اپنی راہ کی مشکلات اور رکاوٹوں سے کبھی دل برداشتہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا خوش دلی اور جرأت سے مقابلہ کرتا ہوں کیونکہ مجھے علم ہے کہ فکر و غم مایوسی اور پریشانی میں مبتلا انسان کی دماغی اور اعصابی قوتیں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور وہ انجانے میں غیرشعوری طور پر ایسا عمل اختیار کرلیتا ہے کہ اس کے کام سنورنے کے بجائے بگڑجاتے ہیں اور ناکامی اس کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے اس کے برعکس میں چونکہ ہر کام خوشی اور مستقل مزاجی اور لگن سے کرتا ہوں اس لیے ناکامی کے اندیشے اور مایوسی کے وسوسے مجھ سے دور رہتے ہیں اور مجھے امید کے دریچوں سے کامیابی کی راہیں روشن نظر آنے لگتی ہیں۔ غمزدہ مایوس اور ناکام انسانوں کو چاہیے کہ اپنا ذہنی رویہ تبدیل کردیں اس سے یقیناً ان کی مایوسی امید میں‘ غم خوشی میں‘ مفلسی امارت میں اور ناکامی کامیابی میں بدل جائےگی۔ انشاء اللہ۔