میں ایک غریب آدمی ہوں‘ میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں‘ گزر اوقات کیلئے ریڑھی پر حلیم اور چاول بیچتا ہوں‘ چاول اور حلیم بیچتا ہوں‘ چاول اور حلیم کی تیاری سے لےکر اس کو فروخت کرنا میرا ہی کام ہے‘ دن بھر میں سو دو سو روپے بچا لیتا ہوں‘ بس یہی میری کل آمدنی ہے اور اسی میں گھر چلا رہا ہوں‘ میری بیوی کا ایک عرصہ پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ دونوں بیٹیاں اور بیٹا جوان ہوچکے تھے‘ بیٹا بھی ایک دکان میں کام کرتا ہے‘ وہ ایک کمزور جسم کا شریف سا نوجوان ہے‘ اس نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے‘ اس سے آگے میں اسے پڑھا نہیں سکا‘ دونوں بیٹیاں دینی تعلیم حاصل کرچکی ہیں‘ دونوں انتہائی سُگھڑ اور شریف ہیں‘ ان کی تربیت بالکل مختلف انداز میں ہوئی ہے‘ انہوں نے کبھی دوپٹہ سر پر لیے بغیر گھر سے قدم بھی نہیں نکالا ہوگا لیکن بدقسمتی سے دونوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کیچڑ میں کھلے ہوئے کنول کی طرح تھیں‘ خدا نے دونوں کو بہت اچھی صورت سے نوازا تھا‘ غریبوں کا فخر کبھی ان کیلئے عذاب بھی بن جاتا ہے‘ طاقت دولت مندوں کیلئے ہوتی ہے اور عذاب غریبوں اور کمزوروں کیلئے‘ میری بیٹیوں کا حسن بھی ہمارے لیے عذاب ہوگیا تھا‘ نجانے کتنی بُری نگاہیں ان دونوں کی طرف اُٹھا کرتیں اور دونوں نے کس طرح خود کو بچا بچا کر رکھا ہوگا‘ محلے ہی کے کئی غنڈے ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے انہیں معلوم تھا کہ ان کا باپ بیچارہ ریڑھی پر حلیم چاول بیچتا ہے‘ کمزور اور بوڑھا ہے‘ ہمارا کچھ نہیں کرسکے گا اس لیے ان کے حوصلے بڑھتے چلے جارہے تھے‘ وہ میری بچیوں کو آتے جاتے تنگ کرنے لگے‘ یہ جو کہانی آپ کو سنا رہا ہوں اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ ہمارے پورے پس منظر سے واقف ہوجائیں۔ ایک دن میری بیٹی روتی ہوئی گھر میں آئی اور اتفاق سے میں گھر میں ہی تھا اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آج تو غنڈے نے انتہا ہی کردی اس نے سنسان گلی دیکھ کر میرا ہاتھ تھام لیا‘ میرا خون کھول کر رہ گیا میں ایک بے بس اور کمزور انسان تھا اگر میں اس کے خلاف واویلہ بھی کرتا تو آخر کیا ہوتا؟ میں یہاں اپنی ایک عادت کا ذکرکرنا مناسب سمجھوں گا کیونکہ میری اس کہانی کا محور میری وہی ’’عادت‘‘ ہے چلتے پھرتے‘ اٹھتے بیٹھتے میں ہروقت درودشریف پڑھا کرتا ہوں اس واقعے کے بعد میں نے اور کثرت سے درودشریف پڑھنا شروع کردیا‘ میں نے دونوں بیٹیوں کو سختی سے ہدایت کردی کہ وہ کسی بھی حال میں اکیلی نہ نکلا کریں میں نے اپنے بیٹے کو اس واقعہ کے بارے میں نہیں بتایا وہ لاکھ شریف اور کمزور سہی لیکن اپنی بہن کے ساتھ کسی کی غنڈہ گردی برداشت نہیں کرپاتا۔ ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ ایک دن اچانک ایک پرانے دوست میرے گھر آگئے‘ وہ ہمارے ہی قبیلے(ذات) سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی شریف انسان تھے‘ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے ہم بہت دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ان کے دوبیٹے تھے‘ دونوں نیک پڑھے لکھے اور برسر روزگار‘ میرے دوست اپنے دونوں بیٹوں کیلئے رشتے کی تلاش میں تھے کہ انہیں میرے گھر کا خیال آیا‘ وہ میرے پاس اپنے بیٹوں کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ کیا بڑی بات تھی! خدا نے بغیر کسی محنت کے اتنا بڑا کام کردیا‘ میں نے اپنے تینوں بچوں سے مشورہ لے کر ہاں کردی۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوگیا تھا کہ حیرت ہونے لگی‘ فوری تاریخ بھی مقرر ہوگئی‘ اب سوال یہ تھا کہ شادی کیلئے پیسے کہاں سے آئیں‘ دو، دو بیٹیوں کی شادیاں تھیں‘ اخراجات تو ہونے ہی تھے اور میرے پاس تھا ہی کیا؟ کچھ بھی نہیں‘ گھر میں مشکل سے بیس سے پچیس ہزار ہونگے ان پیسوں سے کیا ہونے والا تھا‘ میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اپنی ریڑھی اور دوسرا سامان بھی فروخت کردوں گا لیکن اس سے بھی کیا ہوتا‘ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یا ہے یہ 27 اکتوبر 2007ء کا دن تھا‘ مغرب کے بعد میں اپنے گھر بیٹھا درودشریف پڑھ رہا تھا اور ساتھ آنے والے حالات کے بارے سوچ رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی‘ دروازہ کھولا تو ایک اجنبی کو سامنے پایا‘ ان کے چہرے پر خاص قسم کا سکون‘ ٹھہراؤ اور نور تھا۔ جس نے پہلی نگاہ میں ہی مجھے متاثر کردیا تھا‘ میں سوالیہ نگاہوں سے ان صاحب کی طرف دیکھنے لگا: ’’’کیا آپ کا نام شیخ انیس ہے؟‘‘ ان صاحب نےپوچھا۔ ’’جی‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’کیا آپ حلیم چاول کی ریڑھی
لگاتے ہیں‘‘ اس نے دوسرا سوال کیا۔ میں نے کہا ’’جی‘‘ پھر اجنبی نے کہا: ’’میں آپ کے صرف دو منٹ لوں گا‘ آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے‘‘ میری حیرت بڑھتی جارہی تھی‘ نہ جانے وہ کون صاحب تھے‘اور مجھ غریب سے ایسا کون سا کام پڑگیا تھا‘ لیکن دیکھنے سے معقول انسان دکھائی دے رہے تھے اس لیے میں انہیں اپنے گھر لے آیا۔ ’’اب بتائیں کیا آپ پر اتنے روپوں کا قرض چڑھا ہوا ہے‘‘ انہوں نے دریافت کیا اور مزید بولے ’’اوربچیوں کی شادیوں کیلئے آپ کو اتنی رقم کی ضرورت ہے‘‘ میں حیران رہ گیا انہوں نے اتنی ہی رقم بتائی جتنی مجھے ضرورت تھی ’’جی ہاں!‘‘ لیکن یہ سب کیا ہے؟ آپ کو کیسے معلوم ہوا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یہ لیں پیسے‘‘ انہوں نے اپنی جیب سے ایک موٹا سا لفافہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا‘ ’’گن لیں یہ اتنی ہی رقم ہے جتنی آپ کو ضرورت ہے‘‘ ’’لیکن کیوں؟ آپ اتنی زیادہ رقم مجھے کیوں دے رہے ہیں‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا: ’’میں آپ کو نہیں دے رہا بلکہ یہ پیسے آپ کیلئے بھیجے گئے ہیں‘‘ میں مزید حیرانی کے سمندر میں ڈوب گیا اور پوچھا ’’کس نے بھیجے ہیں‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’آپ کثرت سے درودشریف پڑھا کرتے ہیں نا؟‘‘ میں نے کہا: ’’جی‘‘ لیکن یہ تو یا میں جانتا ہوں یا اللہ تعالیٰ‘‘ وہ مزید بولے: ’’جن پر آپ روزانہ کثرت سے درودشریف بھیجا کرتے ہیں وہ بھی تو جانتے ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اتنی رقم شیخ انیس کو دے کر آؤں‘‘ میں تڑپ کر رہ گیا‘ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اللہ اللہ میرے حضور نبی کریم ﷺ کو میرا اتنا خیال‘ میری اتنی دل جوئی‘ میرے ساتھ اتنی ہمدردی‘ میرے ساتھ وہ نورانی شخصیت بھی رو دی۔ وہ صاحب میرے اصرار کے باوجود بھی نہ رکے‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے حکم ملا وہ میں نے پورا کردیا ہے‘ میری ڈیوٹی اتنی ہی تھی‘ میں نے اپنا فرض ادا کردیا‘ اب بخوشی اپنی بچیوں کی شادیاں کردیں۔ قارئین! مجھے وہ دن کبھی بھولے نہیں بھولتا‘ درود پڑھتا ہوں تو اکثر آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے ہیں۔ میں نے بہترین طریقے سے اپنی بچیوں کی شادیاں کیں‘ میں اب بہت مطمئن ہوں‘ میرے گھر میں سکون ہے‘ میرے دل میں سکون ہے۔ مجھے یہ سب کچھ میرے حضور نبی کریم ﷺ کی نگاہ کرم سے عطا ہوا ہے اور میں یہ تمام واقعہ صرف اس لیے عبقری کیلئے بھیج رہا ہوں کہ آپ بھی درود پاک کا گلدستہ اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں بھیجتے رہیں پھر دیکھیں آپ کے بگڑے کام کس طرح سنورنے لگتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment