پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم وہ سیکھیں جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں نفع دے۔اسی باب میں پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا ہے کہ ’’وہ لوگ وہ ہیں جو ایسے علوم سیکھتے ہیں جو انہیں کوئی نقصان تو دیتے ہیںمگر نفع نہیں دیتے‘‘ اب سوچنے کی بات ہے کہ علم نفع نہیں دیتے!غیر مفید علم کی مذمت: پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مزیدفرماتے ہیں کہ ایسے غیر مفید علم کی انہوں نے مذمت فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ آگے انہوں نے حضور پاکﷺ کی حدیث بیان فرمائی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’اے اللہ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو مجھے نفع نہ دے۔‘‘ پس تھوڑے علم کی مدد سے بہت سا عمل کرنا اور ضروری ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو کیونکہ رسولﷺ نے فرمایا کہ عابد علم دین کے جانے بغیر خراص کے گدھے جیسا ہے۔ خراص چکی، کولہو والے کو کہتے ہیں ۔ اسکے پاس علم نہیں ہے صرف عبادت ہے وہ اسی کی طرح ہے اور سرورِکونین ﷺ نے بے علم عابدوں کو خراص کے گدھے سے مشابہ فرمایا۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ وہ کتنا ہی گھومے اپنے پہلے ہی قدم پر رہتا ہے ، آگے کا فاصلہ طے نہیں کر سکتا۔ اب پیر علی ہجویری اپنا مشاہدہ بیان فرمارہے ہیں کہ’’میں نے عوام الناس کا ایک گروہ دیکھا ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتے ہیں اور دوسرا گروہ عمل کو علم پر لیکن یہ دونوں امر باطل ہیں۔ اس لیے کہ علم کے بغیر عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب علم اسکے ساتھ شامل ہواور علم بھی وہ جو صحیح علم ہو۔
قرآن پاک کو اہل علم سے پڑھنا....!
دیکھیں !آج ایک عجیب بات چلی ہے اور مجھے کئی لوگ بتاتے ہیں کہ ہم ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ میں کئی لوگوں کو روک دیتا ہوں کہ مت پڑھو۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ ترجمے کے ساتھ قرآن پاک سے روکتاہے..... !بھئی میں ترجمے کے ساتھ قرآن پاک سے نہیں روکتا ،اسکو ضرور پڑھنا چائیے لیکن کسی سے پڑھنا چاہیے ایک بات..... اور دوسری بات یہ ہے کہ کس کا ترجمہ پڑھنا چاہئے۔ آپ دنیا کی تاریخ میں ایک چیز اٹھا کر دیکھیں اور حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی یادداشتوں میں ایک بات ملتی ہے، عجیب بات لکھی ہے۔ فرمایا کہ میں نے دنیا کے ایسے لوگ دیکھے جن کے پاس علم کے سمندر تھے لیکن اس سمندر میں لوگ ڈوب گئے پار نہ اتر سکے کہ اس علم کی وجہ سے وہ گمراہ ہو گئے۔ خود قرآن کہتا ہے ’’یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا ‘‘اس قرآن کو پڑھ کے بہت سے لوگ ہدایت پا جائیں گے اور بہت سے گمراہ ہو جائیں گے۔ خدا جانے قرآن سے بھی کوئی گمراہ ہو سکتا ہے۔ نہیں ہو سکتا، قرآن راہ ہدایت ہے۔ لیکن قرآن خود فرما رہا۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ سمجھنے کی بات ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن تو سراپا ہدایت ہے۔ قرآن تو نور ہدایت ہے لیکن اس سے گمراہ وہ ہوتے ہیں جو اسکو اپنے مزاج سے ،اپنی سمجھ سے، بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ قرآن سے لے کر حدیث، حدیث سے لے کر فقہ، فقہ سے لے کر تفسیر، تفسیر سے لے کر سوانح،ملفوظات و معقولات کسی اللہ والے کی یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان خود نہ پڑھے بلکہ کسی سے پڑھے۔
No comments:
Post a Comment