پریشانی‘ ویرانی‘ بربادی:میرے غم کو اس نے لطف اور مزہ میں لیا اور مجھے اس نے مذاق بنالیا‘ میرے علم کو نہ دیکھا‘ میری عمر کو نہ دیکھا‘ میرے بڑھاپے کو نہ دیکھا‘ اور چلا گیا۔ اب میں اندھا تو نہیں کانا ہوگیا اورمیرا اندھا پن بڑھتا چلا جارہا تھا‘ مجھے جگہ جگہ ٹھوکریں لگیں اور میں ٹھوکریں کھاتا کھاتا دن رات گزار رہا تھا‘ میرا کوئی پل ایسانہیں تھا کہ میری آنکھوں سےا ٓنسونہ بہہ رہے ہوں‘ میرا ایک ہاتھ مفلوج اور میری ایک آنکھ اندھی تھی‘ میں بے زور ہوکر رہ گیاتھا‘ میری طاقتیں‘ قوتیں ختم ہوگئیں‘ میرا جسم ویران ہوگیا‘ میرے حالات بدسے بدتر ہوگئےبس انہی حالات میں‘ میں پریشانی کے عالم میں بہت زیادہ ویرانی اور بربادی کے ساتھ زندگی کے دن رات گزارنے لگا۔ مجھے بددعائیں کیوں دیں؟ کوئی مہینہ سوا مہینے بعد کا واقعہ ہے کہ میں سویا ہوا تھا تو کسی نے میری پنڈلی پر زور سے کاٹا ‘میں ایک دم چیخ کر اٹھا تو کوئی نہیں تھا‘ بس اس کا ہواؤں اور فضاؤں میں بھیانک قہقہہ اور خطرناک انداز‘ میں ویران ہوگیا‘ غم میں ڈوب گیا‘ میرے انداز سے اسے اور لطف اور مزہ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ تو نے مجھے بددعائیں کیوں دی تھیں اب میں تیرا کوئی پل‘ کوئی سانس ‘کوئی لمحہ سکون کا نہیں رہنے دوں گا۔ تجھے ہمیشہ بے سکون اور بے چین رکھوں گا۔ مجھے تجھ سے بغض ہے‘ عداوت ہے‘ دشمنی ہے ۔میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا :آخرمیں نے خطا کیا کی تھی؟ لیکن اس کا ایک بھیانک قہقہہ سنائی دیااور وہ غائب ہوگیا۔ پھر روزانہ رات کو میرے ساتھ یہی ہونا شروع ہوگیا جب بھی سو جاتامیں درد سے چیختا ‘چلاتا ‘گھبراتا‘ چونکتا اور حیرت انگیز بات ہے کہ یہ جاگتے ہوئے نہیں ہوتا تھا شاید وہ میری نیند کا انتظار کرتا یا مجھ پر خطرناک جادوئی طاقتوں سے نیند مسلط کرتا تھا اس کے بعد وہ میرے جسم کے کسی نہ کسی حصے پر کاٹتا اس کے دانتوں کے پورے نشان ہوتے تھے اور ابھی بھی ہیں اور ان سے خون رستا رہتا ہے‘ کوئی دوایا علاج اس پر اثر نہیں کرتی حتیٰ کہ جوں جوں علاج کرو زخم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے‘ تکلیف بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور درد بہت زیادہ بڑھتا ہے۔ رزق لٹ گیا‘بیٹیوں کو طلاق ہوگئی: میں پریشانی کے عالم میں یہی تکلیف سہہ رہا تھا اور یہی درد نبھا رہا تھا‘ میرے ساتھ گھر کا رزق لٹ گیا‘ میری دو بیٹیوں کو طلاق ہوگئی اور جب بھی یہ طلاق دلواتا تھا مجھے آکر بتاتا تھا کہ یہ میں نے کروایا ہے‘ یہ زمین پر خدا بنا ہوا تھا شاید اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھیل دی ہوئی تھی گھر میں چیزیں چوری ہوجاتی ہیں‘ میرے گھر میں سونے کی کوئی چیز نہیں بچی یہ چرا کر لے جاتا ہے اور واضح کہتا ہے کہ میں نے چرایا اور ہر چرانے کے بعد بتاتا تھا کہ میں نے وہ سونا وہ رقم وہ مال وہ چیزیں عیاشی میں خرچ کی ہیں‘اس کا پل پل میرے لیے اذیت ناک اب تو نامعلوم کتنے سالوں سے میں سو نہیں سکا لیکن یہ ظالم میری اونگھ میں بھی مجھے تکلیف دیتا اور مجھے زخمی کردیتا میں بوڑھا ہوں لیکن سالہا سال کی اس کی اذیتوں نے مجھے وقت سے پہلے اور بوڑھا کردیا ہے اور سالہا سال کی اس کی اذیتوں نے مجھے وقت سے پہلے ویران اور برباد کردیا ہے۔مجھے جنات سے محبت ہے مگر یہ جن قابل نفرت ہے: وہ مجمع کو غم اور دکھ سنا رہاتھا اور بار بار کہہ رہاتھا کہ بادشاہ سلامت میں عالم ہوں‘ میں مفتی ہوں‘ میں نے علم پڑھا ہے ‘فقہ اورمیرےعلم کے مطابق کالا جادو اور کالا جادوگر اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی گردن اتار دی جائے‘ میں خود جن ہوں‘ مجھے جنات سے محبت ہے‘ لیکن یہ جن قابل نفرت ہے‘ یہ جن قابل محبت نہیں ہے‘ بادشاہ سلامت! آپ اس کے ساتھ ہرگز ہرگز ترس نہ کھائیں‘ ہرگز ہرگز رحم نہ کھائیں اور اس کو میرے حوالے کردیں کہ میں اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردوں‘ یہ امت پر احسان ہوگا‘ مظلوموں پر احسان ہوگا اور آپ کا مجھ پر احسان ہوگا ۔وہ بوڑھاعالم مفتی جن رو رہا تھا‘ رو رو کر اپنی فریادیں بیان کررہا تھا کہا کہ مجھے آج پتہ چلا کہ وہ ظالم پکڑا گیا ہے اور پتہ بھی اس لیے چلا کہ میں گزشتہ دو تین دنوں سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوا مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے تو میرا پیچھا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن آج مجھے کیوں چھوڑ گیا پھر مجھے آپ کی طرف سے اطلاع ملی کہ ہر شخص آکر اپنا دکھ بیان کرے میں آج آپ کے سامنے اپنا دکھ اور غم بیان کرنے آیا ہوں بس میرے ساتھ ترس کھائیں اور رحم کھائیں اور مجھے انصاف دلائیں۔ میرا تمام علمی ذخیرہ ضائع کردیا:اس نے میری تمام کتابیں پھاڑ دی ہیں اس نے میرا تمام علمی ذخیرہ ضائع کردیا ہے‘ میرا ہاتھ ابھی تک مفلوج ہے‘ میری آنکھ ابھی تک اندھی ہے‘ مجھے یقین ہے جب یہ قتل ہوگا تب اس کا جادو اور طلسم ٹوٹے گا اور میری آنکھ اور میرا ہاتھ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے آپ سے انصاف چاہیے: وہ بوڑھا عالم جن چیخ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بادشاہ آپ کے دربار میں کسی عالم کا کوئی مقام نہیں کیا؟ آپ کے دربار میں کسی بوڑھے کا کوئی وقار نہیں کیا؟ آپ کے دربار میں کسی مظلوم کی کوئی پکار اور فریاد نہیں؟ مجھے آپ سے بہت کچھ نہیں چاہیے مجھے آپ سے صرف انصاف چاہیے۔ میں بہت نادم ہوں کہ میں شاید آپ کے دربار کی گستاخی کرگیا ہوں میں نے آپ کے ادب کا خیال نہیں کیا لیکن آپ میرے دکھ اور غم کو اگر تولیں گے تو شاید یہ دکھ اور غم سب سے زیادہ بھاری ہوگا اور سب سے زیادہ پریشان کن ہوگا۔ میرے دکھ اور غم میں آپ میرا ساتھ دیں۔ اس دکھ اور غم میں آپ مجھے تنہا نہ چھوڑیں۔ بادشاہ سلامت کیا مجھے آپ اس حالت میں چھوڑ دیں گے؟ کیا آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے؟ مجھے آپ کا ساتھ چاہیے۔ مجھے الجھنوں کا توڑ چاہیے: مجھے غموں سے نجات چاہیے مجھے الجھنوں کا توڑ چاہیے۔ بادشاہ غم اور غصے کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ اس شخص کے حالات سن رہا تھا‘ اب تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید مجمع کے آنسو ہی ختم ہوگئے ہیں اور مجمع رو رو کر ہچکیاں لے لے کر ہلکان ہورہا تھا وہ ظالم جادوگر زنجیروں میں جکڑا سر جھکائے ہوا تھا‘ معلوم یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے جادو کا ہرگُر زنجیروں سے نکلنے کیلئے آزما چکا ہے لیکن اب اس کا ہر گُر‘ جادو کا طلسم اور راز ختم ہوچکے ہیں وہ مخلوق کو گمراہ کرنے والا تھا۔ مخلوق کےساتھ دکھوں اوردردوں کو چننے والا نہیں تھا‘ پھیلانے والا تھا‘ وہ مظلوم بنانے والا تھا‘ وہ ظلم ڈھانے والا تھا وہ دشمنیاں پھیلانے والا تھا وہ گھروں میں لڑائیاں کروا کر آپس میں نفرتیں پیدا کرکے محظوظ ہوتا تھا۔ اس کا پل پل شرارت اور چنگاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اس کا دماغ منفی سوچتا تھا مثبت نہیں سوچتا تھا وہ جانور نہیں تھا بلکہ جانور کتے اور خنزیر سے بدتر تھا وہ سانپ اور بچھو کی طرح تھا کہ بچھو کو ڈسنے سے مزہ نہیں آتا لیکن وہ ڈستا ہے۔آج ظالم کا انجا م اپنی آنکھوں سے دیکھیں: بادشاہ نے جلاد کو بلوایا جلاد فوراً حاضر ہوا پورے مجمع میں کہرام مچ گیا اور انصاف انصاف کی آوازیں لگنے لگیں اور مجمع خوشی کے مارے اچھل رہا تھا کہ آج ظالم کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن اسی دوران ایک عورت بار بار پکار پکار کراپنا غم اور دکھ سنانے کی فریاد کررہی تھی اور وہ چاہ رہی تھی اس کا غم اور دکھ سنا جائے اس کا درد
بھی سنا بھی جائے اور اس کو بھی انصاف دلایا جائے اس ظالم کو ایسے نہ مارا جائے ‘وہ عورت پکار رہی تھی جس طرح اس نے لوگوں کو سسکایا ہے اسی طرح اس کو بھی سسکایا جائے‘ اس نے بادشاہ سلامت کو کہا کہ بادشاہ سلامت پہلے اس کی ایک آنکھ نکالی جائے پھر اس کو تڑپایا جائے پھر چند گھنٹوں کے بعد اس کی دوسری آنکھ نکالی جائے پھر اس کو تڑپایا جائے‘ پھر اس کا ایک کان کاٹا جائے جو بہت شدت سے نہیں کسی کند چھری سے سارا نہ کاٹا جائے ایک ٹکڑا کاٹا جائے پھر اس کو سسکایا اور تڑپایا جائے پھر دوسرا ٹکڑا کاٹا جائے اس طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اس کا کان کاٹا جائے پھر اس کے جسم کے ایک ایک بال کوکھینچا اور ادھیڑا جائے اورپھر اس کے جسم کے ایک ایک روئیں کو زخمی کیا جائے۔ پھر اسی طرح اس کا دوسرا کان کاٹا نہ جائے بلکہ کترا جائے پھر اسی طرح دوسری آنکھ ہونٹ اور ناک الغرض کوئی چیز اس کی کاٹی نہ جائے بلکہ چھوٹے چھوٹے حصوں سے لوہے کی بڑی قینچیوں کے ساتھ کتری جائے تب ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمیں انصاف ملا ہے ۔ یہ جن میری تین بیٹیاں اٹھا کر لے گیا:بادشاہ سلامت آپ خود منصف ہیں ‘ آپ رحم دل ہیں‘ رحم دلی آپ کی نسلوں سے چلتی آرہی ہے‘ آپ شریف ہیں آپ مخلص ہیں۔ یہ جن میری تین بیٹیاں اٹھا کر لے کر گیا ‘میری جوان خوبصورت بیٹیاں‘ میں جننی ہوں‘ میری بیٹیاں بلوغت سے نکل کر شادی کی عمر میں تھیںکہ میری ایک بیٹی کو اٹھا کر لے گیا ‘میری بیٹی اپنے گھر کے درخت کے نیچے بیٹھی تھی اور اپنے خوبصورت لمبے بالوں کو سنواررہی تھی وہ کھڑی ہوکر کنگھی کررہی تھی اور اس کے بال اتنے گھنے اور خوبصورت تھے کہ زمین کو چھو رہے تھے اس دوران میں نے ایک قہقہہ سنا ایک دردناک آواز سنی اور ایک سفاکی اور تیزی کی ایک سیٹی دار لہر سنی جس نے میرے سارے گھر کو سناٹے میں ڈال دیا اور میرا گھر اسی سناٹے میں سہم گیا‘ اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور میری بیٹی کو پکارا اور بس پھر میں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی چیل کسی مرغی کے بچے کو اٹھا کر لے جاتی ہے اسی طرح یہ ظالم اپنے خوفناک پنجوں میں چیختی چلاتی بیٹی کو اٹھا کر لے گیا‘ مجھے آج تک وہ بیٹی نہیں ملی یقیناً وہ میری بیٹی دن رات اسی ظالم کے پاس آگ پر بھن رہی ہے اور اس ظالم کے ظلم میں وہ تڑپ رہی ہے‘ ٹھیک پانچ ماہ کے بعد میری دوسری بیٹی بھی اسی طرح اٹھا کر لے گیا‘ اُس وقت جب وہ نہا رہی تھی مجھے رب نے حسن و جمال دیا ہے اس باحجاب بانقاب جننی نے بتایا۔ میری بیٹیاں بہت حسین و جمیل ہیں پانچ ماہ قبل کا غم مجھے نہیں بھولاتھا کہ یہ میری دوسری بیٹی کو بھی اٹھا کر لے گیا۔ میرا گھر اور نسلیں ویران:میرے گھر میں صف ماتم تھی‘ ویرانی تھی‘ میرا گھر کا ہر فرد رو رہا تھا‘ میرے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ہر بیٹا غم اور انتقام میں ابل رہا ہے‘ اس واقعہ کو صرف انیس ماہ ہوئے ہیں اور میرا گھر اجڑ گیا ہے‘ میری نسلیں ویران ہوگئی ہیں اور میں برباد ہوگئی ہوں میرا کوئی وارث نہیں رہا‘ میرا کوئی ساتھی نہیں رہا‘ میری عزتیں مجھ سے لٹ گئی ہیں‘ میرے بیٹے گھر سے باہر نہیں نکل پارہے‘ وہ کس کو منہ دکھائیں اور کیا منہ دکھائیں‘ ابھی یہ غم ہرا ہی تھا کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد میری تیسری بیٹی جو ابھی کچھ ماہ پہلے بالغ ہوئی تھی اس کو بھی اٹھا کر لے گیا‘ مجھے کوئی خبر نہیں مجھے اس کی شکل یاد ہے‘ مجھے اس کا چہرہ یاد ہے‘ نامعلوم اس نے میری بیٹیوں کو کہاں رکھا ہوا ہے؟ وہ تڑپ رہی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے چہرہ پیٹ رہی تھی اس نے اپنا سینہ چھلنی کیا ہوا تھا وہ پکار رہی تھی کیا بادشاہ سلامت میری بیٹیاں اسی کے پاس رہیں گی اور آپ اس کو قتل کردیں گے‘ کیا بادشاہ سلامت میری بیٹیاں ایسے ہی سسکتی رہیں گی‘ کیا میں غم کے بادلوں میں ایسے ڈھکی ڈھکی مر جاؤں گی؟ کیا میں اپنی نیک شریف بیٹیوں کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤں گی؟ کیا میں اسی طرح سسکتی‘ روتی اورابلتے آنسوؤں کے ساتھ قبر میں چلی جاؤں گی؟ کیا میں ان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کرسکوں گی؟ وہ یہ لفظ کہتے ہوئے رو رہی تھی تڑپ رہی تھی اس کے لفظ عجیب تھے ‘سارا مجمع تڑپ رہا تھا۔ بادشاہ کے طاقت ورمحافظوں نے مجمع کو سنبھالا ہوا تھا ‘ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اس جادوگر کی جاکر گردن مروڑ دیں یا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں یا اس کو قتل کردیں۔ لیکن بادشاہ کے طاقتور محافظوں نے مجمع کو قریب نہیں آنے دیا اور بادشاہ نے اس کو روکا ہوا تھا۔جب جادوگر میری بیٹی کو پھینک گیا: لمحے گزرتے جارہے تھے اس خاتون کی داستان بڑھتی چلی جارہی تھی‘ وہ کہنے لگی: ایک دفعہ اس نے ہمیں سسکانے اور تڑپنے کیلئے درمیانی بیٹی جس کونہاتے ہوئے اٹھایا تھا اس کو ہمارے گھر پھینک گیا اس کا جسم ہر ہر جگہ سے زخمی تھا اور چبایا ہوا تھا‘ وہ سسک رہی تھی وہ بار بار پانی مانگتی تھی وہ بول نہیں سکتی تھی وہ اپنا درد نہیں بیان کرسکتی تھی‘ اس کی زبان پر اس نے جادو کیا ہوا تھا وہ دیکھ رہی تھی اور اس کے احساسات تھے‘ اس کی سمجھ تھی اس کی عقل تھی‘ اس کا شعور تھا لیکن وہ بول نہیں سکتی تھی‘ وہ آنکھوں سے اور ہاتھوں سے اپنا غم سنانے کی کوشش کرتی لیکن پھر وہ رو کر ڈوب ڈوب جاتی تھی‘ وہ تڑپ جاتی تھی تین دن ہمارے گھر میں رہی‘ ہم نے اسے کھلانے پلانے اس کے زخموں پر مرہم لگانے کی بہت
کوشش کی لیکن اس کا کوئی زخم ٹھیک نہیں ہوتا تھا ان زخموں میں زہر بھرا ہوا تھا‘ وہ کھا پی نہیں سکتی تھی‘ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی‘ حسن و جمال ختم ہوچکا تھا‘ اس کے آدھے بال گرچکے تھے۔ اس کا جسم نڈھال ہوچکا تھا وہ کروٹ خود نہیں بدل سکتی تھی‘ بیٹھنا تو دور کی بات ہے‘ وہ ٹانگیں سیدھی نہیں کرسکتی تھی‘ اس کا ہاتھ جہاں پڑا ہوتا تھاو ہیں پڑا رہتاتھا تین دن کے بعد دیکھا کہ وہ گھر میں نہیں ہے ہم نے ادھر ادھر تلاش کیا لیکن وہ تو چل پھر ہی نہیں سکتی تھی۔ بس پتہ چل گیا کہ یہ خبیث جن میری بیٹی کو اٹھا کر پھر لے گیا ہے وہ دراصل ہمیں سسکانا چاہتا تھا‘ تڑپانا چاہتاتھا اور بتانا چاہتا تھا کہ میں طاقت ور ہوں! ہم اس زندگی سے اکتا چکے ہیں: ایک اہم بات اس خاتون نے یہ بتائی کہ ہمارے پورے گھر میں بدبو ہے ایسے جیسے کسی نے بہت بڑی غلاظت ہمارے گھر میں چھوڑ دی ہے۔ ہم نے گھر کو خوب صاف کیاایک ایک کونے کو کریدا کوئی مرا ہوا جانور کوئی غلاظت کچھ بھی نہیں‘ بس سارا دن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گندگی کی آندھی اور طوفان ہمارے گھر میں ہے‘ ہم اس زندگی سے اکتا چکے ہیں ہمارے گھر کا ہرفرد گندگی میں اٹا ہوا ہے میرے بیٹے شرمندہ شرمندہ ہیں‘ ان کے وقت سے پہلے چند ہی مہینوں میں بال سفید ہوگئے ہیں‘ ہمارے گھرمیں کبھی کھانا پکتا ہے کبھی نہیں پکتا‘ اگر پکا ہوا بھی ہوتا ہے تو کسی کا کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا‘ ہر شخص یا ایک دوسرے کا منہ تکتا ہے یا سر نیچا کیے روتا رہتا ہے یا پھر فضاؤں میں گھور گھور کر رب کی مدد اور طاقت کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ وہ جننی رو رہی تھی اس کا رونا میں بیان نہیں کرسکتا وہ جننی تڑپ رہی تھی‘ اس کا تڑپنا الفاظ میں ڈھل نہیں سکتا۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment