Monday, December 11, 2017

شوق اور کامیابی


استاد یوسف دہلوی(۱۹۷۷)مشہور خوشنویس تھے۔ان کو فنِ خطاطی پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار ریت کے میدان پرجعلی خط کا مقابلہ ہوا۔استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بانس کا بڑا ٹکڑا تھا۔انہوں نے بانس سے ریت پہ لکھنا شروع کیا الف سے ش تک پہنچےایک فرلانگ کا فاصلہ ہو گیا۔لوگوں نے کہا بس کیجئے۔استاد یوسف نے کہا میں نے جو لکھا اس میں رنگ بھر دو اور پھر ہوائی جہاز سے اس کی چھوٹے سائز میں فوٹو لےلو،مجھے یقین ہے کہ فوٹو میں وہی خط رہے گاجو میرا اصل خط ہے۔اس کے بعد کسی اورکو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔وہاں ماہ مسعود کی آمدپر ان کو ایک محراب کا مضمون لکھنے کے لئے دیا گیا۔استقبال کی تیاریوں کا بچشم معائنہ کرنے کے گورنر جنرل آئے۔ اس دوران انہوں نےاستاد یوسف کا لکھا ہوا محراب بھی دیکھا۔اس شان خط کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔انہوں نے کہا یہ کس خطاط نے لکھا ہے،چناچہ استادیوسف کوبلایاگیا۔گورنر جنرل نے ان کے کام کی تعریف کی اور پوچھاکہ اس کو لکھنے میں آپ کا کتناوقت لگا۔استاد یوسف نے کہا سات دن۔گورنر جنرل نے فورا اپنے سیکرٹری کوحکم دیا کہ استاد کو ان کی خدمت کے اعتراف میں سات ہزار روپے پیش کرو ۔چنانچہ اسی وقت ان کو اتنی بڑی رقم کا چیک دے دیا گیا۔استاد یوسف سے کسی شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا!انہوں نے کہاکسی سے نہیں۔ان کے والدایک مشہور خوش نویس تھے۔مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی بھی نہیں کی۔پوچھے پرانہوں نے بتایا کہ خوش نویسی کا فن میں نے لال قلعے سے سیکھا ہے۔لال قلعہ میں مغل دورکے استادوں کی وصلیاں (تختیاں)رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیںجوفنِ خطاطی کے شاہکار نمونے ہیں۔استاد یوسف دس سال تک برابر یہ کرتے رہےکہ لال قلعہ جاکر ان تختیوں کو دیکھے۔ہر روزایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے۔اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتےاور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کے لال قلعہ جاتے۔وہاں کی مخفوظ تختی سے اپنے لکھےکو ملاتےاوراپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔اس طرح مسلسل دس سال تک ہر روزلال قلعہ کی قطعات کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہےاور ان کو دیکھ دیکھ کر مشق کرتے رہے۔ یہی جدوجہد تھی کہ جس نے انہیں استاد یوسف بنادیا۔ اگر آدمی کے اندر شوق ہو تو نہ پیسے کی ضرورت ہے نہ استاد کی، نہ کسی اور چیز کی۔ اس کا شوق ہی اس لئے ہر چیز کا بدل بن جائے گا۔وہ بغیر کسی چیز کے سب حاصل کر لےگا۔

No comments:

Post a Comment