جب میں بہت چھوٹی تھی اس وقت میں لاہور یا دوسرے شہروں میں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھی‘ کام کرتے ہوئے کوئی برتن جیسے شیشے کا گلاس یا کپ وغیرہ اگر کبھی ٹوٹ جاتا تو بہت سخت سرزنش کی جاتی اور ساتھ ساتھ مار بھی پڑتی تھی‘ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں برتن دھو رہی تھی کہ مجھ سے ایک شیشے کا گلاس ٹوٹ گیا پھر کیا تھا کہ میری شامت آگئی ایک زناٹے دار تھپڑ جب میرے سفید چمڑے پر پڑتا تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آجاتا تھا اور سوائے رونے دھونے کے میں کر بھی کیا سکتی تھی؟ اس کے بعد میرے والدین کو جب پتہ چلا تو انہوں نے مجھے واپس بلالیا۔میں نے پرائمری تعلیم بھی حاصل کی تھی اور گھر میں اپنی والدہ سے قرآن پاک ناظرہ کا چند سپارے بھی پڑھے تھے۔ اس کے بعد مجھے مانگنے پر لگا دیا گیا‘ ہم تین سے چار بچے ہوتے تھے اور ہماری ڈیوٹی ہوتی تھی کہ سارا دن شہر کے لاری اڈوں اور بسوں میں جاکر مانگنا ہے اس کام سے ہمارا اچھا خاصا گزارہ ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد فوت ہوگئے اور اس کے دو سال بعد والدہ بھی وفات پاگئیں۔پھر میں بُرے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی‘ چند سال کے بعد ہی میں ایک مکمل طوائف بن چکی تھی‘ ایک مرتبہ میں ایک چھوٹے سے شہر میں ایک کرائے کے گھر میں رہتی تھی اور میرا ’’دھندا‘‘ عروج پر تھا‘ تو اس علاقہ کے معزز افراد نے ہم سے مکان خالی کروالیا‘ اس کے بعد شہر کی دوسری جگہ پر مزید دو سال رہے‘ پھر جب ان کو ہمارے ’’کاروبار‘‘ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے بھی ہم سے گھر خالی کروا لیا۔ پھر ایک اور چھوٹے سے شہر میں جاکر رہائش اختیار کی‘ جب وہاں کے لوگوں کو ہمارے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے ہمیں ایک تانگے پر بٹھا کر اور ہمارے منہ کالے کرکے سارے شہر کا چکر لگوایا۔ اس کے بعد ہم ایک اور شہر میں آگئے‘ وہاں پر ہمیں علاقے کے ’’معززین‘‘ کا تحفظ حاصل تھا‘ بڑے بڑے عہدوں والے ہمارے پاس آتے‘ پھر کچھ عرصہ بعد ہم نے پھر شہر تبدیل کرلیا‘ یہاں پر آکر بھی ہم
نے ’’پہلے والی‘‘ زندگی گزارنا شروع کردی۔ طوائف زادیوں میں میرا ایک مقام تھا‘ ایک نام تھا‘ مجھے دیکھ کر طوائفیں رشک کرتی تھیں‘ میرے پاس بڑے بڑے امراء آتے اور میری ایک جھلک دیکھنے کو منہ مانگی رقم دی جاتی۔ اس شہر میں بھی میں چند سال رہی پھر پاکستان کے ایک بڑے شہر میں آگئے۔ یہاں بھی چند ماہ کے اندر اندر میری دھوم پورے شہر میں پھیل گئی‘ میرے حسن کا چرچا ہونے لگا‘ لوگ میری قیمت لگاتے اور منہ مانگے پیسے دیتے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے‘ بنگلوں والے میری جھڑکیاں تک سہہ جاتے۔ حتیٰ کہ میں بعض اوقات گالیاں نکالتی وہ بھی برداشت کرتے حتیٰ کہ جن کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھ سکتا تھا میں ان سے شدید بدتمیزی کرتی اور وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ پورے بازار میں میری دھوم تھی۔ مجھے خود پر فخر تھا‘ ناز تھا‘ مجھ میں حسن کی وجہ سے اکڑ تھی‘ طوائفیں میری شہرت دیکھ کر مجھے دور سے دیکھتیں اور ٹھنڈی آہیں بھرتیں۔ میرے پاس اکثر ایک شخص آتا تھا‘ وہ آتا مجھ سے چار باتیں کرتا اور چلا جاتا‘ ایک دن آیا تو اپنی فائل (جان بوجھ کر) بھول گیا‘ میں اپنے بستر پر لیٹی بے فکری سے اس کی فائل ٹٹول رہی تھی تو اس میں سے ایک میگزین میرے بستر پر گرا‘ جب میں نے پکڑ کر ٹائٹل دیکھا تو اس پر ’’ماہنامہ عبقری لاہور‘‘ لکھا ہوا تھا‘ اور اس رسالے کو کھولا تو اس میں سے ایک چھوٹا سا کتابچہ ’’دو انمول خزانہ‘‘ ملا۔ خیر میں نے عبقری میگزین کو پڑھنا شروع کیا‘ بس پڑھتی گئی اور زمین میں دھنستی چلی گئی‘ میرے منہ سے نکلا ’’اُف خدایا یہ کیا ہے؟‘‘ ’’اور میں کیا ہوں؟‘‘ دو انمول خزانہ کتابچہ پڑھا‘ تعارف پڑھا‘ اس میں موجود واقعات پڑھنے کے بعد دوانمول خزانہ نمبر دو جب چند بار پڑھا تو مجھے اپنے وجود سے لباس سے‘ بستر سے‘ نفرت سی ہونے لگی۔ میں نے اپنی خادمہ کو بلایا‘ نئے کپڑوں کا بندوبست کروایا‘ غسل کیا اور ایک کونے میں بیٹھ کر سارا میگزین پڑھا‘ دوانمول خزانہ کتابچہ بار بار پڑھا۔ خادم بھیج کر مارکیٹ سے گزشتہ شمارے منگوائے‘ پڑھتی گئی اور دل بدلتا گیا۔ میں نے چند دن بعد اپنی خادمائیں اور خادمین بلائے اور سب کو کہا کہ ’’ہم اس کام سے توبہ کررہے ہیں‘ ہم یہ کوٹھا چھوڑ رہے ہیں‘‘ آپ کسی اور کو یہاں لاکر بٹھالیں‘ سب نے مجھے بہت روکا‘ بہت مجھ پر ہنسے‘ بعض نے کہا روٹی کو ترسو گی‘ اتنی عزت شہرت کو لات مار کر جارہی ہو مگر میں نہ مانی اور سب کچھ چھوڑ کر اسی شہر میں ایک چھوٹے سے قصبے میں کرائے کا مکان لے کر رہنے لگی۔ چند دن بعد میرا ایک پرانا ملنے والا پوچھتا پوچھاتا میرے گھر آگیا اور آکر کہا کہ مجھے جب تمہاری توبہ کا پتہ چلا تو بہت خوشی ہوئی‘ میری بیوی مجھے چھوڑ کر جاچکی ہے تم مجھ سے نکاح کرلو اور پاک صاف زندگی کا آغاز کرتے ہیں‘ میں اس کی بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اللہ نے مخلص بھیج دیا کیونکہ انمول خزانہ اور عبقری رسالہ پڑھنے کے بعد میری ایک ہی خواہش تھی کہ اے کاش جیسے دوسرے لوگوں کا گھر ہوتا ہے میرا بھی گھر ہو۔ میں نےبخوشی ہاں کردی‘ چند دن بعد ہی ہمارا نکاح ہوگیا۔ کچھ عرصہ تو میرے ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہا اور ایک دن اس نے کہا کہ ہم عمرہ کرنے جارہے ہیں‘ میں خوشی سے پھولی نہ سمائی‘ بار بار سجدے میں گرتی کہ یااللہ تیراشکر ہے تو نے میری توبہ قبول فرمائی اور مجھے اپنے اور اپنے حبیب ﷺ کے در پر بلالیا۔ جب ہم سعودیہ پہنچے تو میرےشوہر نے مجھے ایک سعودی شخص کے ہاتھوں بہت بھاری قیمت پر فروخت کردیا‘ مجھ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے‘ اس شخص نے طلاق میرے ہاتھ پر رکھی اور ایئرپورٹ روانہ ہوگیا۔ میں مرتی کیا نہ کرتی؟ وہ شخص مجھے سعودی عرب کے شہر ریاض لے گیا اور ایک علیحدہ فلیٹ میں رکھا‘ رو رو کر اللہ سے مانگتی کہ یااللہ مجھے اس گندگی سے نکال لے‘ تجھے اس پاک دھرتی کا واسطہ جہاں تو مجھے لے آیا اب یہاں کی برکت سے مجھے گندگی سے نکال لے۔ وہ سعودی شخص آتا‘ میرے پاس بیٹھتا‘ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور اشاروں میں میرے ساتھ بات کرتا‘ مگر میرے قریب آنے کی کوشش تک نہ کرتا۔ میں حیران تھی کہ اس نے مجھے ہاتھ تک نہ لگایا‘ ٹھیک چار ماہ کے بعد اس نے مجھ سے نکاح کروالیا اور فلیٹ سے نکال کر علیحدہ مکان لے کر دیا‘ پھر مجھے پتہ چلا کہ اس کی مجھ سے پہلے بھی دو بیویاں ہیں اور تیسری میں ہوں‘ وہ معاشی طور پر ٹھیک ٹھاک تھا‘ اس کے اپنے کارخانے اور کاروبار تھے‘ اس کی بیٹیاں اور بیٹے بھی تھے۔ مجھے اپنے سارے خاندان سے ملوایا‘ چند ماہ کے بعد ہی میں ان کے خاندان میں رچ بس گئی‘ اس کے بیٹے اور بیٹیاں میری بہت زیادہ عزت کرتے ہیں‘میرا شوہر بہت خیال رکھنے والا ہے‘ ہر سال مجھے عمرہ اور حج کرواتا ہے‘ میں سعودیہ میں بھی بذریعہ انٹرنیٹ درس اور عبقری رسالہ پڑھتی ہوں‘ میرے پاس آج عزت ‘ بے پناہ دولت ہے‘ کسی چیز کی کوئی کمی نہیں‘ زبان پرانمول خزانہ نمبر دو جاری رہتا ہے۔ وہ شمارہ عبقری اور دو انمول خزانہ کتابچہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
No comments:
Post a Comment