Monday, December 11, 2017

بادشاہ اور چار چور


سلطان محمود غزنوی اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا اس کی عادت تھی کہ وہ راتوں کو بھیس بدل کر شہر کی گلیوں میں جائزہ لیتا کہ رعایا کس حال میں ہے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سلطان محمود غزنوی اپنے معمول کے مطابق بھیس کر شہر میں پھر رہا تھا کہ اسے ایک جگہ پر چند افراد کٹھے جاتے ہوئے دکھائی دئیے جو کسی جگہ چوری کرنے کی نیت سے جارہے تھے۔ سلطان محمود غزنوی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر چور خوفزدہ ہوگئے کہ یہ آدھی رات کے وقت کون اس طرف آرہا ہے چونکہ انہوں نے سلطان کو بالکل نہیں پہچانا تھا اس لیے کہنے لگے تم کون ہو؟ سلطان نے کہا میں بھی تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں‘ چوروں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی ہماری طرح کا کوئی چور ہی ہے جو آدھی رات کے بعد چوری کی نیت سےنکلا ہے چنانچہ انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے ان سے کہا تنی رات گئے تم کس ارادے سے پھر رہے ہو؟ وہ کہنے لگے اسی ارادے سے جس ارادے سے تم پھر رہے ہو یعنی چوری کی نیت سے۔ سلطان نے کہا اگر چوری ہی کرنی ہے تو پھر کسی ایسی جگہ کرو جہاں سے اس قدر دولت ہاتھ لگ جائے جو ساری عمر کیلئے ہمیں کافی ہو اور پھر کبھی چوری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ میرا مشورہ ہے کہ شاہی محل لوٹتے ہیں جہاں سے ہمیں بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگ سکتا ہے۔ چوروں نےسنا تو بہت خوش ہوئے اور سلطان کی جرأت و بہادری پر اش اش کر اٹھے اور کہا واہ بھئی واہ تم تو بڑے بہادر اور جرأت مند ہو کیونکہ شاہی محل میں چوری کرنا بڑی ہمت اور حوصلے کاکام ہے اور تم اس بات کو کرنے میں ذرا بھی نہیں گھبرائے ہم تمہیں آج سے اپنا سردار مانتے ہیں تم جو حکم دو گے ہم اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جو کام تم نے شاہی محل والا بتایا ہے وہ بڑا مشکل ہے۔ سلطان نے کہا میرے ہوتے ہوئے تم ذرا نہ گھبراؤ اب تیاری پکڑو اس مقصد کیلئے پہلے ہم ایک منصوبہ بنالیتے ہیں تاکہ آسانی رہے ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا کمال بیان کرے کہ وہ کس خصوصی خوبی کامالک ہے۔ان سب نے باری باری اپنا اپنا کمال بتانا شروع کیا کہ ایک چور کہا کہ میں یہ کمال رکھتا ہوں کہ جس جگہ خزانہ رکھا گیا ہو مجھے اس جگہ کی مٹی سے خزانے کی خوشبو آجاتی ہے۔ دوسرا چور کہنے لگا مجھے یہ کمال حاصل ہے کہ اگر سخت اندھیری رات میں بھی کسی کو ایک مرتبہ دیکھ لوں تو پھر اس کی شکل کبھی نہیں بھولتا اور دن کی روشنی میں بغیر کسی مشکل کے اسے شناخت کرلیتا ہوں۔ تیسرے چور نے کہا میں یہ خصوصی کمال رکھتا ہوں کہ مجھے کتے کی زبان سمجھ آتی ہے۔ چوتھا چور بولا: مجھے یہ کمال حاصل ہے کہ چاہے محل کی دیوار کتنی اونچی ہو اگر میں کمند پھینکوں تو وہ فوراً دیوار کے اوپر جاکر فٹ ہوجاتی ہے جس کے باعث ہم آسانی کے ساتھ محل کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔ اب چور کہنے لگے: سردار! اب تم اپنا کمال بتاؤ‘ سلطان بولا: مجھ میں یہ خوبی ہے کہ اگر مجرم گرفتار ہوں اور ان کو موت کی سزا کا حکم ہو پھر جلاد ان کی گردنیں اتارنے کیلئے تختہ دار پر بھی لے آئے تو عین اس موقع پر اگر میں اپنی ڈاڑھی ہلادوں تو مجرم اسی وقت قید سے چھوٹ جائیں اور ان کی جان بخشی ہوجائے۔ سب چور یہ سن کر بڑے حیران ہوئے اور کہا اس کمال کے ہوتے ہوئےتو ہمیں ذرا بھی ڈر محسوس نہیں کرنا چاہیے اس کے بعد وہ سب شاہی محل کی طرف چوری کے ارادے سے چل پڑے کہ راستے میں ایک کتا ان کی طرف دیکھ کر بھونکا چور نے بتایا کہ ساتھیو! کتے نے جو کچھ کہا ہے اسے سن کر تو میں بھی بڑا حیران ہورہا ہوں اگر تم سنو تمہیں یقین ہی نہ آئے باقی چوروں کو بھی تجسس ہوا کہنے لگا بتاؤ تو سہی کتا کیا کہہ رہا ہے؟ وہ بولا کتا کہہ رہا ہے کہ ان پانچوں میں سے ایک بادشاہ ہے‘ یہ سن کر سب ہنسنے لگے اور بولے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے ایک بادشاہ ہے۔ وہ چور کہنے لگا بے شک تم اس بات پر ہنسو لیکن کتا یہی کہہ رہا ہے۔ ان سب نے اپنے دل کو تسلی دینے اور بات کو اپنے مطلب کے مطابق سمجھتے ہوئے کہا کہ کتے کے کہنے کامطلب ہے کہ یہ پانچوں شاہی خزانہ لوٹنے جارہے ہیں پانچوں بادشاہ ہوں گے۔ یہی باتیں کرتے ہوئے وہ شاہی محل پہنچ گئے اب کمند ڈالنے والے چور نے اپنا کمال دکھایا۔ اس چور نے ایک ہی بار جو کمند پھینکی تو وہ محل کی دیوار کے اوپر جالگی اس کے بعد سب باری باری دیوار پار کرگئے۔ اب خزانہ سونگھنے والے چور کی باری تھی چنانچہ اس نے اپنا کمال دکھایا اور سب نے مل کر وہاں سے خزانہ نکال لیا اور جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے خزانہ لے کر باہر نکل آئے ابھی صبح نہیں ہوئی تھی اور رات کا اندھیرا باقی تھا وہ فوراً شہر کی حدود سے باہر نکلے اور ایک جنگل میں بیٹھ کر خزانہ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔ مگر سردار نے کہا کہ ابھی ہم خزانہ یہاں دفن کردیتے ہیں جب سپاہی خزانہ کی تلاش میں ناکام ہوں گے تو نکال کر تقسیم کرلیں گے۔ جب خزانہ دفن کرکے سب گھروں کو جانے لگے تو سردار نے سب سے ان کے گھروں کے ایڈریس لے لیے تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ سلطان اپنے محل واپس آگیا‘ صبح اچانک شور اٹھا کہ شاہی خزانہ لوٹ لیا گیا‘ فوری طور پر سپاہی چوروں کی تلاش میں بھاگے۔ سلطان نے سپاہیوں کے سربراہ کو چاروں چوروں کے نام اور پتہ بتائے اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ سپاہی فوراً چاروں کو پکڑ لائے۔ چور حیران کہ آخر انہیں ہمارا پتہ کیسے ملا؟ ہماری مخبری کیسے ہوئی‘ آخر ہمارا سردار کہاں ہے؟ خزانہ کی چوری کے جرم میں انہیں سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ یہ حکم سن کر ان کے اوساں خطا ہوگئے‘ آپس میں کہنے لگے: ہمارا سردار ہوتا تو ایسے وقت میں اپنا کمال دکھاتا‘ افسوس ہمارا سردار نہیں پکڑا گیا۔ اب تو وہ خود ہی اکیلا خزانہ پر قبضہ جمالے گا۔ جب انہیں تختہ دار پر لے جایا جانے لگا تو حکم ملا کہ چوروں کو سلطان کے سامنے لایا جائے اگر وہ کوئی آخری خواہش کرنا چاہیں تو مرنےسے پہلی پوری کی جاسکے۔ جب چور سلطان کے سامنے پیش کیے گئے تو سلطان محمود غزنوی پورے شاہی لباس میں تھا‘ چاروں چور نظریں جھکائے کھڑے تھے‘ اچانک اس چور کی نظر سلطان پر پڑی جو اندھیری رات یں بھی ایک بار دیکھی ہوئی شکل کبھی نہیں بھولتا تھا اور دن میں شناخت کرنا کوئی مشکل نہ تھا۔ اس نے پہچان لیا کہ تخت پر جو شخصیت جلوہ افروز ہے وہی رات کے وقت ہمارا ساتھی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنے ساتھی چور کے کان میں کہا اے دوست! رات کو کتے کی کہی ہوئی بات اب سمجھ آئی ہے‘ کتا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ ان پانچوں میں ایک بادشاہ ہے یہ جو تخت پر بیٹھا ہے رات کو یہی ہمارا ساتھی تھا‘ دوسرا چور اس کی بات سن کر کہنے لگا: ارے احمق! کیا بکواس کرتے ہو‘ رات کو تم نے ایک کتے کی بات پریقین کرکے چور کو بادشاہ بنادیا اب تم بادشاہ کو چور کہہ رہے ہو لگتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے تم اپنے ہوش میں نہیں ہو۔ سلطان محمود غزنوی نے ان کی آپس میں کھسر پھسر سن رہا تھا بولا تم لوگوں نے کیا کھسر پھسر لگارکھی ہے جس چور نے بادشاہ کو پہچان لیا تھا فوراً چند قدم آگے بڑھا اپنے ہاتھ باندھ کر بولا۔ اے ہمارے سردار! ہم سب نے اپنا اپنا کمال دکھادیا‘ اب تم اپنی ڈاڑھی ہلاؤ اور ہمیں موت کے منہ سے بچاؤ۔سلطان اس چور کی بات سن کر ہنس پڑا اور کہا واہ بھی واہ! تم نے مجھے پہچان لیا اور اپنا کمال دکھا دیا اب میں اپنا کمال دکھاتا ہوں اور اپنی ڈاڑھی کو ہلاتا ہوں‘ جاؤ تم سب آزاد ہو‘ چوروں نے اپنی رہائی کا حکم سنا تو بڑے متاثر ہوئے اور اسی وقت سلطان کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور آئندہ چوری سے توبہ کی اور ہمیشہ کیلئے نیکی کا راستہ اختیار کرنے کا سچا وعدہ کرکے شاہی دربار سے رخصت ہوگئے۔

No comments:

Post a Comment