Sunday, December 31, 2017

کیا کوئی تمہارا مخلص دوست ہے؟


کیا کوئی میرا مخلص دوست ہے؟ آپ حیران ہوں گے کہ میں نے بچپن سے اور اچھے زمانے میں یہ فقرہ اپنے دادا جان حکیم ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والدگرامی حکیم فیروزالدین اجملی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا۔ قرآن پاک طب و نفسیات اور سپورٹس مین شپ ان کی زندگی تھی‘ اوڑھنا‘ بچھونا تھی‘ اُس وقت ہمارا معاشرہ بانجھ، بے مزہ‘ بے وقعت نہیں ہوا تھا۔ ہر گھر میں مشینری کم سےکم تھی زیادہ سے زیادہ کھاتے پیتے گھرانے میں چھت والا پنکھا اور زیادہ امیر کے گھر میں پیڈسٹل فین ہوتا تھا۔ موبائل فون، ٹی وی،ویڈیو گیمز نہیں تھیں۔ یقین مانیے اس وقت مہنگائی، اورورک، تکان‘ تناؤ‘ ٹینشن‘ ڈیپریشن‘ بلڈپریشر‘ شوگر‘ قلب‘ معدہ جگر‘ آنتوں کے مریض اس قدر نہیں تھے ان میں سے اکثر الفاظ سےقوم ناآشنا تھی۔ اس وقت میں نے اپنے بزرگوں کو اپنے احباب سے یہ فقرہ کہتے سُنا کہ کیا تمہارا کوئی مخلص دوست ہے؟ میں نے بالکل بچپن میں ان کی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ میٹھے بول میں جادو ہے۔ ہنسی خوشی جینا سیکھئے۔ حکایات سعدی۔ حکایات رومی۔ گلستان، بوستان جیسے عنوانات سے مزین کتابوں کی گُھٹی ملی۔قارئین کرام! میرے باباجی کے دوست تھے عارف شاہ وارثی صاحب فرماتےدوست کا مطلب ہے دو سَت یعنی دو جو ہر دو نچوڑ، دوالکلائیڈ، جس کی بُری بھی بھلی لگے‘ دوست بے غرض‘ بے لوث‘ درمیان میں امیری غریبی کا فرق نہ ہو۔ امیر جھک کر دوستی میں اغراض و مقاصد لالچ پر مبنی نہ ہو صرف اللہ کیلئے تعلق ہو اور غیرمسلم سے انسانیت اور اخلاق کے ناطے تعلق ہو۔ تب ہی نبھتی ہے۔ بابرکت ہوتی ہےاس میں اللہ کی رحمت موجود ہوتی ہے۔ پیارے قارئین کرام تمہید کچھ لمبی ہوگئی۔ اس وقت نفسانفسی، بے برکتی، بے اعتباری، بے اعتمادی کے جس دور سے ہم گزررہے ہیں حقیقتاً معاشرہ برباد ہوچکا ہے۔ نہ ہماری دینی قدریں مضبوط ہیں نہ ہی دنیاوی خاندان اور رشتوں کو توڑ پھوڑ، مہنگائی نے ملنا جلنا‘ آنا جانا چھین لیا ہے۔ فون پر بھی غم خوشی بانٹنے سے ہم دور ہوگئے ہیں‘ہر کاروباری سے دن بھر اسی حوالے کے لوگ ملتے ہیں جب غور کرے تو دوست شاید ایک بھی مشکل سے ہوتا ہوگا۔ میں اکثر احباب سے پوچھتا ہوں کیا تمہارا کوئی بے تکلف دوست ہے؟

No comments:

Post a Comment