سہ 1965ء کی جنگ قصور سیکٹر پر گزاری ہے۔ تین واقعات میرے ساتھ ایسے ہوئے ہیں کہ جیسے کوئی ہماری غیبی حفاظت کررہا ہو‘ یعنی کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ پاک فوج کی غیبی حفاظت ہورہی ہے۔ پہلا واقعہ: جس دن جنگ شروع ہوئی تھی اسی دن میرے اپنے ہی ہاتھ سے سٹین گن چل گئی تو ناک اور آنکھوں کے ساتھ سے گولی اوپر نکل گئی‘ حالانکہ بچنا ناممکن تھا مگر اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ دوسرا واقعہ: ہم آموں کے باغ میں تھے‘ رات کی ڈیوٹی تھی‘ غالباً رات دو بجے کا وقت تھا‘ ساتھ کماد کا کھیت تھا اس میں دشمن کی گوریلا فورس اسی تاک میں بیٹھی تھی کہ ہمارے کیمپ پر حملہ کرے لیکن ہم دو آدمی ڈیوٹی پر تھے ہم نے آپس میں باتیں کیں اور باتیں بھی اس انداز سے کیں کہ جیسے بہت زیادہ لوگ ہوں تو صرف باتیں کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ہیبت طاری فرمادی اور وہ بھاگ گئے۔ حالانکہ اگر وہ ہم پر حملہ کرتے تو ہمیں بآسانی اپنی گولیوں کا نشانہ بناسکتے تھے۔تیسرا واقعہ: میں ڈرائیور تھا‘ میرے ساتھ ایک اور ساتھی تھا‘ ہم آگے پل پر ڈیوٹی دینے والے چار جوانوں کو کھانا دینے کے بعد واپس کیمپ میں آرہے تھے‘ قصور شہر سے جونہی باہر نکل رہے تھے کہ دشمن کے دو جہاز بلندی سے ہم پر گولیاں برسارہے تھے ہم ایک چھپر کے پاس سے گزر رہے تھے جو گولیاں اور بریسٹ پانی میں لگ رہے تھے میں نے جیپ کو جلدی سے روکا اور ایک بہت بڑے درخت کے ساتھ چھپ گئے اتنے میں ہمارے لڑاکا طیارے نے ان کا پیچھا کیا تو وہ بھاگ گئے‘ اللہ نے ہمیں بچالیا پھر غالباً اسی دن میں اکیلا سڑک پر جارہا تھا میری گاڑی کا سلف سٹارٹر خراب تھا میں گاڑی بند نہیں کرسکتا تھا میرے آگے ڈی آر جارہا تھا جو بات وائرلیس پر نہ بتانے والی ہو وہ (ڈی آر) دستی کاغذ لیکر دفتروں میں پہنچاتا ہے۔ مجھ سے تھوڑا ہی آگے ایک ڈی آر جارہا تھا اس پر دشمن کے جہاز نے حملہ کای ڈی آر اللہ کے فضل سے بچ گیا لیکن سڑک میں 6x6 فٹ کا شگاف بن گیا۔ میں تھوڑا ہی پیچھے آرہا تھا اللہ نے ہم دونوں کو ہی بچالیا اور میں نے ساتھ والے کھیت کے اندر سے گاڑی نکال کر پھر اپنے کیمپ کی طرف آگیا۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم ملک کو نظربد سے بچائے اور ہمیشہ آباد و خوشحال رکھے۔
No comments:
Post a Comment