کیا کوئی میرا مخلص دوست ہے؟ آپ حیران ہوں گے کہ میں نے بچپن سے اور اچھے زمانے میں یہ فقرہ اپنے دادا جان حکیم ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والدگرامی حکیم فیروزالدین اجملی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا۔ قرآن پاک طب و نفسیات اور سپورٹس مین شپ ان کی زندگی تھی‘ اوڑھنا‘ بچھونا تھی‘ اُس وقت ہمارا معاشرہ بانجھ، بے مزہ‘ بے وقعت نہیں ہوا تھا۔ ہر گھر میں مشینری کم سےکم تھی زیادہ سے زیادہ کھاتے پیتے گھرانے میں چھت والا پنکھا اور زیادہ امیر کے گھر میں پیڈسٹل فین ہوتا تھا۔ موبائل فون، ٹی وی،ویڈیو گیمز نہیں تھیں۔ یقین مانیے اس وقت مہنگائی، اورورک، تکان‘ تناؤ‘ ٹینشن‘ ڈیپریشن‘ بلڈپریشر‘ شوگر‘ قلب‘ معدہ جگر‘ آنتوں کے مریض اس قدر نہیں تھے ان میں سے اکثر الفاظ سےقوم ناآشنا تھی۔ اس وقت میں نے اپنے بزرگوں کو اپنے احباب سے یہ فقرہ کہتے سُنا کہ کیا تمہارا کوئی مخلص دوست ہے؟ میں نے بالکل بچپن میں ان کی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ میٹھے بول میں جادو ہے۔ ہنسی خوشی جینا سیکھئے۔ حکایات سعدی۔ حکایات رومی۔ گلستان، بوستان جیسے عنوانات سے مزین کتابوں کی گُھٹی ملی۔قارئین کرام! میرے باباجی کے دوست تھے عارف شاہ وارثی صاحب فرماتےدوست کا مطلب ہے دو سَت یعنی دو جو ہر دو نچوڑ، دوالکلائیڈ، جس کی بُری بھی بھلی لگے‘ دوست بے غرض‘ بے لوث‘ درمیان میں امیری غریبی کا فرق نہ ہو۔ امیر جھک کر دوستی میں اغراض و مقاصد لالچ پر مبنی نہ ہو صرف اللہ کیلئے تعلق ہو اور غیرمسلم سے انسانیت اور اخلاق کے ناطے تعلق ہو۔ تب ہی نبھتی ہے۔ بابرکت ہوتی ہےاس میں اللہ کی رحمت موجود ہوتی ہے۔ پیارے قارئین کرام تمہید کچھ لمبی ہوگئی۔ اس وقت نفسانفسی، بے برکتی، بے اعتباری، بے اعتمادی کے جس دور سے ہم گزررہے ہیں حقیقتاً معاشرہ برباد ہوچکا ہے۔ نہ ہماری دینی قدریں مضبوط ہیں نہ ہی دنیاوی خاندان اور رشتوں کو توڑ پھوڑ، مہنگائی نے ملنا جلنا‘ آنا جانا چھین لیا ہے۔ فون پر بھی غم خوشی بانٹنے سے ہم دور ہوگئے ہیں‘ہر کاروباری سے دن بھر اسی حوالے کے لوگ ملتے ہیں جب غور کرے تو دوست شاید ایک بھی مشکل سے ہوتا ہوگا۔ میں اکثر احباب سے پوچھتا ہوں کیا تمہارا کوئی بے تکلف دوست ہے؟
Sunday, December 31, 2017
چالیس سال سے کوئی پریشانی نہیں
چند دن پہلے میرے ایک کلائنٹ نے آکرمجھے اپنی زندگی کا ایک زبردست تجربہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک درود پاک پڑھتا ہوں‘ اس کے پڑھنے سے مجھے بہت سکون ملتا ہے اور زندگی کی مشکلات بالکل ختم ہوگئی ہیں۔ مجھے کبھی کوئی ٹینشن‘ پریشانی‘ مشکل نہیں ہوئی اورجب سے پڑھ رہا ہوں ہر مقام پر زبردست فتح و نصرت ملتی ہے۔ وہ بتانے لگے کہ 35 سے 40 سال ہوگئے ہیں میں یہ درود پاک پڑھ رہا ہوں۔ میری زندگی میں سکھ ہی سکھ ہے۔
Monday, December 11, 2017
بچے جادو کا شکار
میرے بچے جادو کا شکار:۔
میرے بچے گزشتہ آٹھ سال سے سخت جادو کا شکر ہیں‘ شیطان جنات‘ سفلی بچوں کے پاؤں سے چڑھتے ہیں اور سخت اذیت دیتے ہیں‘ اب تک بچوں کےعلاج پر لاکھوں خرچ کرچکی ہوں لیکن کہیں سے مستقل شفاء نہیں ہوئی‘ جس کسی نے جو بتایا وہ سب کچھ پڑھتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد دوبارہ حملہ ہوجاتا ہے۔ خدارا ہمیں کوئی وظیفہ یا عمل عنایت فرمائیں کہ ان مصائب سے ہماری جان چھوٹ جائے۔
جواب: صبح و رات سورۃ فلق اور سورۂ ناس ایک تسبیح پڑھ کر پانی پر دم کریں اور یہ پانی تمام گھر والے پینے کیلئے استعمال کریں اور اسی پانی کے چھینٹے گھر کے چاروں کونوں میں ماریںمزیدیہی پانی ہاتھوں پر ہلکا سا لگا کر پورے جسم پر پھیر لیا کریں۔ علاوہ ازیں نماز عصر کے بعد یَااللّٰہُ یَارَحْمٰنُ یَارَحِیْمُ ایک سو ایک بار پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے حالات بہتر ہونے کی دعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھیں کہ اس یقین سے ہی انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے۔ وسوسوں میں گرفتار نہ ہوں۔
بگڑی قسمت سنور گئی
دعا اور توبہ سے زندگی بدل سکتی ہے۔ والدین اور بزرگوں کی دعا سے آپ کے ہر مسئلے کا حل نکل سکتا ہے اور ہر الجھن ختم ہوسکتی ہے۔ صدقہ مصائب اور گردش حالات کو ٹال دیتا ہے۔ معاشرے کے گرے پڑے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی بے لوث مدد کرکے ان کی دعاؤں سے ہر قسم کی ٹینشن‘ ڈیپریشن‘ گردش حالات اور بیماریوں کا یقینی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل کریں او ر اپنی بگڑی قسمت سنوار کر خوشگوار زندگی بسر کریں۔جس کے نامہ اعمال میں درود شریف اور استغفار کی کثرت نکلے وہ انسان خوش نصیب ترین انسان ہوگا۔
پاک فوج کے دو سپاہی بمقابلہ انڈین رجمنٹ
سہ 1965ء کی جنگ قصور سیکٹر پر گزاری ہے۔ تین واقعات میرے ساتھ ایسے ہوئے ہیں کہ جیسے کوئی ہماری غیبی حفاظت کررہا ہو‘ یعنی کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ پاک فوج کی غیبی حفاظت ہورہی ہے۔ پہلا واقعہ: جس دن جنگ شروع ہوئی تھی اسی دن میرے اپنے ہی ہاتھ سے سٹین گن چل گئی تو ناک اور آنکھوں کے ساتھ سے گولی اوپر نکل گئی‘ حالانکہ بچنا ناممکن تھا مگر اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ دوسرا واقعہ: ہم آموں کے باغ میں تھے‘ رات کی ڈیوٹی تھی‘ غالباً رات دو بجے کا وقت تھا‘ ساتھ کماد کا کھیت تھا اس میں دشمن کی گوریلا فورس اسی تاک میں بیٹھی تھی کہ ہمارے کیمپ پر حملہ کرے لیکن ہم دو آدمی ڈیوٹی پر تھے ہم نے آپس میں باتیں کیں اور باتیں بھی اس انداز سے کیں کہ جیسے بہت زیادہ لوگ ہوں تو صرف باتیں کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ہیبت طاری فرمادی اور وہ بھاگ گئے۔ حالانکہ اگر وہ ہم پر حملہ کرتے تو ہمیں بآسانی اپنی گولیوں کا نشانہ بناسکتے تھے۔تیسرا واقعہ: میں ڈرائیور تھا‘ میرے ساتھ ایک اور ساتھی تھا‘ ہم آگے پل پر ڈیوٹی دینے والے چار جوانوں کو کھانا دینے کے بعد واپس کیمپ میں آرہے تھے‘ قصور شہر سے جونہی باہر نکل رہے تھے کہ دشمن کے دو جہاز بلندی سے ہم پر گولیاں برسارہے تھے ہم ایک چھپر کے پاس سے گزر رہے تھے جو گولیاں اور بریسٹ پانی میں لگ رہے تھے میں نے جیپ کو جلدی سے روکا اور ایک بہت بڑے درخت کے ساتھ چھپ گئے اتنے میں ہمارے لڑاکا طیارے نے ان کا پیچھا کیا تو وہ بھاگ گئے‘ اللہ نے ہمیں بچالیا پھر غالباً اسی دن میں اکیلا سڑک پر جارہا تھا میری گاڑی کا سلف سٹارٹر خراب تھا میں گاڑی بند نہیں کرسکتا تھا میرے آگے ڈی آر جارہا تھا جو بات وائرلیس پر نہ بتانے والی ہو وہ (ڈی آر) دستی کاغذ لیکر دفتروں میں پہنچاتا ہے۔ مجھ سے تھوڑا ہی آگے ایک ڈی آر جارہا تھا اس پر دشمن کے جہاز نے حملہ کای ڈی آر اللہ کے فضل سے بچ گیا لیکن سڑک میں 6x6 فٹ کا شگاف بن گیا۔ میں تھوڑا ہی پیچھے آرہا تھا اللہ نے ہم دونوں کو ہی بچالیا اور میں نے ساتھ والے کھیت کے اندر سے گاڑی نکال کر پھر اپنے کیمپ کی طرف آگیا۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم ملک کو نظربد سے بچائے اور ہمیشہ آباد و خوشحال رکھے۔
جائز مرادیں پالیں
گیارہ دن کے اندر اندر ان شاء اللہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے آج تک جس کو بھی بتایا اس کے گیارہ یا اکیس دن کے اندر اندر مسائل حل ہونا شروع ہوگئے۔ آپ کم از کم 21 دن بلاناغہ یہ عمل کریں۔ خواتین مخصوص ایام یا ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں بھی پڑھ سکتی ہیں
یہ وظیفہ ایک متقی بزرگ نے عطا کیا تھا‘ میں نے خود بھی آزمایا اور کئی دکھی لوگوں کو بھی بتایا جس کو بھی بتایا اور اس نے کیا تو بفضل خدا غیب سے مدد ہوئی۔ ہر نماز کے بعد اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ
تین سو مرتبہ
پڑھیں اور خوب توجہ انکساری کے ساتھ دعا مانگیں۔ گیارہ دن کے اندر اندر ان شاء اللہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے آج تک جس کو بھی بتایا اس کے گیارہ یا اکیس دن کے اندر اندر مسائل حل ہونا شروع ہوگئے۔ آپ کم از کم 21 دن بلاناغہ یہ عمل کریں۔ خواتین مخصوص ایام یا ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔ اس وظیفہ کی اجازت عام ہے‘ ہر جائز مراد کیلئے پڑھ سکتے ہیں۔
پرندوں کو کھانا دینے کا انعام
ہمارے گاؤں کے لوگ غریب کسان تھے‘ وہ کھیتی باڑی سے اپنا گزارہ کرتے تھے‘ گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان تھی‘ لوگ اپنا غلہ لے کر اس دکان دار کےپاس جاتے وہ ان سے غلہ لیتا اورپیسے دےدیتا۔ وہ دکان دار غلے کو تولتا نہیں تھا بلکہ تولے بغیر ہی چند روپے بندے کے ہاتھ پر رکھ دیتا‘ لوگ بے چارے کچھ کہہ نہیں پاتے کیونکہ انہیں پیسے چاہیے ہوتے اور اگر بچے ان کے پاس جاتے تو ان سے غلہ لے کر چند میٹھی گولیاں دے دیتا۔ اس کی ایک عادت تھی‘ وہ دوپہر کے وقت گھر سے تازہ روٹیاں لے کر پہاڑوں میں جاتا اور وہاں جو بیمار کتے‘ کتیا یا ان کے چھوٹے بچے ہوتے ان کو وہ روٹیاں ڈال کر آتا اور جس کتیا کے بچے چھوٹے ہوتے ان کیلئے وہاں چھوٹے کمرے بناتا تاکہ وہ سردی سے بچ سکیں۔ پھر وہ شخص بوڑھا ہوگیا اور پھر اس کی موت کا وقت آیا اس وقت میں مدرسے میں قرآن حفظ کررہا تھا چند لوگ آئے کہ فلاں باباجی کی حالت بہت خراب ہے‘ ان کی جان نہیں نکل رہی تو آپ لوگ ہمارے ساتھ چل کر ان کےلیے کچھ پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں میں اور میرے استاد صاحبان گئے ہم نے وہاں پر اس شخص کے پاس بیٹھ کرسورۂ یٰسین شریف پڑھی‘ (شاید انہوں نے یٰسین کا ختم کیا تھا) یا جو بھی پڑھا تو ان کی جان نکل گئی اچانک مجھے اونگھ آگئی اور میں نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بھڑیں اور ذنبوریاں آرہی ہیں اور اس کی لاش سے چمٹ گئی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان بھڑوں نے اس کی لاش کو ختم کردیا ایک دم سے خوفزدہ ہوکر میں اٹھ بیٹھا‘ میں نے اپنے استاد کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے جنازہ پڑھانے سے پہلے لوگوں سے ایک درخواست کی‘ اے لوگو! یہ شخص مسلمان ہے اور ہمارے گاؤں کا ہے آپ لوگوں کا حق کھاچکا ہے مگر اب آپ لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اس کو معاف کردیں اگر اس کو عذاب ہوگا تو آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہوسکتا ہے اس کو معاف کرنے سے ہم سب کی بھی مغفرت ہوجائے‘ تو لوگوں نے کہا ہم نے اپنا حق اس کو معاف کیا‘ ہم نے اس کی ہر زیادتی کو معاف کیا‘ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو معاف کردیا ہوگا۔ اسے ان مظلوم جانوروں کی دعا لگ گئی کہ اللہ نے اس کے اتنے سنگین جرم کو بھی معاف کرنے کا انتظام کردیا۔ اللہ تعالیٰ اتنا کریم ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بخشنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔
تھیلمیسیا کے مریض کیلئے
تھیلیسیما کے مریض:۔
میرے دو بچے تھیلیسیما کے مریض ہیں ان کو ہر ماہ خون لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میرے ابو بھی بہت بیمار ہیں‘ آپ سے گزارش ہے کہ میرے بچوں اور میرے ابو کیلئے کوئی وظیفہ بتادیں ساتھ میں دعاؤں کی بھی درخواست ہے۔
جواب:آپ دونوں (یعنی میاں بیوی) سارا دن اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے‘ وضو بے وضو لاکھوں کی تعداد میں
پڑھیں۔اگر آپ کے بچے پڑھ سکتے ہیں تو انہیں بھی یہ وظیفہ بتائیں اور انہیں کہیں کہ ہروقت یہی پڑھتے رہیں۔ چند ہفتے‘ چند مہینے یا جب تک بچوں کو صحت نہیں مل جاتی تب تک یہ وظیفہ لاکھوں کی تعداد میں پڑھیں۔ اس کے علاوہ صبح و شام بچوں کی تلاوت لگا کر سنائیں یا خود ان کے سر ہانے بیٹھ کر ذرا اونچی آواز میں پڑھیں اور ان پر دم کریں اور سورۂ رحمٰن کا دم کیا ہوا پانی انہیں پلائیں۔ ان شاء اللہ صحت نصیب ہوگی۔
جانوروں کی شکل میں آنے والے جنات
میرے ایک دوست ہیں جوکے مقامی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے‘ ان کی رہائش مسجد سے کچھ فاصلہ پر تھی‘ ایک دن مجھے انتہائی پریشانی کے عالم میں بتانے لگے کہ میں بہت زیادہ پریشان ہوں‘ فجر کی نماز کیلئے جب گھر سے نکلتا ہوں تو راستہ میں ایک انتہائی کالا سیاہ ناگ راستے میں پھن پھلائے کھڑا ہوتا ہے اور اسی طرح جب عشاء کی نماز پڑھا کر واپس گھر کو روانہ ہوتا ہوں تو راستے میں وہی ناگ پھن پھیلائے کھڑا مجھے ڈرا رہا ہوتا ہے۔ گھر میں بھی کئی مرتبہ چارپائی کے نیچے سانپ ہوتے ہیں‘ میں نے کئی سانپوں پر ڈنڈے برسائے ہیں بعض تو مرجاتے ہیں اور بعض فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر مزید بتانے لگے کہ ایک مرتبہ تو میں غسل خانہ میں نہارہا تھا جب باہر نکلنے لگا تو دروازہ کے درمیان ہی وہی کالا ناگ پھن پھیلائے کھڑا تھا‘ میں نے غسل خانہ کے اندر سے اہلیہ کو آوازیں لگانا شروع کردیں کہ ڈنڈا لے کر آؤ‘ میرے سامنے ناگ کھڑا ہے‘ وہ ڈنڈا لے کر آئی اور دور سے ہی مجھے پکڑا دیا‘ میں نے جب اس کو مارنے کی کوشش میں ڈنڈا ہوا میں اٹھایا ہی تھا کہ وہ نیچے سے یکدم غائب ہوگیا اور میں حیران و پریشان وہی کھڑا سوچتا رہ گیا کہ یہ ہوکیا گیا؟
اسی طرح ایک بلی اور کتا بھی گلی میں پھرتے رہتے ہیں‘ میں نے مشورہ دیا کہ کسی عامل سے مل کر معلوم کرائیں کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ ایک عامل کے پاس گئے اور پورا ماجرہ سنایا‘ اس عامل نے کہا کہ آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاؤ‘ تھوڑی دیر بعد عامل نے کہا کہ آنکھیں کھولو اور پیچھے دیکھو‘ اس نے پیچھے دیکھا تو وہی کتا اور بلی جو گلی میں پھرتے تھے‘ ٹھیک میرے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے‘ پھر کچھ دیر کے بعد مجھے عامل نے کہا کہ سامنے دیکھو‘ جب میں نے سامنے دیکھا تو دو آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ وہی جنات تھے جو بلی‘ کتے اور ناگ کی شکل میں مجھے نظر آتے تھے۔
عامل نے ان سے پوچھا تم انسانوں کو کیوں تنگ کرتے ہو اور اس شخص پر کیوں مسلط ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں زبردستی اس پر مسلط کیا گیا ہے۔ مہربانی فرما کر ہمیں آزادی دلوا دیں۔ ہم اس شخص کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ اس عامل نے عمل کیا پھر وہ جنات چلے گئے اور اس شخص کے گھر نہ کبھی سانپ نکلا نہ ہی کبھی گلی میں ناگ نظر آیا اور نہ ہی وہ مخصوص قسم کی بلی اور کتا نظر آئے۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے ایک مریضہ ٹیلیفون پر مجھ سے اپنا علاج معالجہ کرواتی تھی‘ اس پر جنات کا سایہ تھا‘ ٹیلی فون پر جن خود مجھ سے بات کرنے لگ جاتا اور کہتا کہ مجھے اس خاتون پر مسلط کیا گیا ہے میں خود آزاد ہونا چاہتا ہوں‘ آپ اس خاتون کو چھوڑیں میری مدد کریں‘ میں خود بہت زیادہ پریشان اور اذیت میں ہوں‘ میں نے اس خاتون کو حضرت حکیم صاحب کے پاس دفتر ماہنامہ عبقری بھیجا‘ وہاں سے اس نے علاج کروایا تو کچھ عرصہ کے بعد وہ جن آزاد ہوگیا اور خاتون بھی پرسکون ہوگئی۔ اب وہ خاتون بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور اچھی ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو شریر جنات و انسان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
جنات کا پیدائشی دوست
پریشانی‘ ویرانی‘ بربادی:میرے غم کو اس نے لطف اور مزہ میں لیا اور مجھے اس نے مذاق بنالیا‘ میرے علم کو نہ دیکھا‘ میری عمر کو نہ دیکھا‘ میرے بڑھاپے کو نہ دیکھا‘ اور چلا گیا۔ اب میں اندھا تو نہیں کانا ہوگیا اورمیرا اندھا پن بڑھتا چلا جارہا تھا‘ مجھے جگہ جگہ ٹھوکریں لگیں اور میں ٹھوکریں کھاتا کھاتا دن رات گزار رہا تھا‘ میرا کوئی پل ایسانہیں تھا کہ میری آنکھوں سےا ٓنسونہ بہہ رہے ہوں‘ میرا ایک ہاتھ مفلوج اور میری ایک آنکھ اندھی تھی‘ میں بے زور ہوکر رہ گیاتھا‘ میری طاقتیں‘ قوتیں ختم ہوگئیں‘ میرا جسم ویران ہوگیا‘ میرے حالات بدسے بدتر ہوگئےبس انہی حالات میں‘ میں پریشانی کے عالم میں بہت زیادہ ویرانی اور بربادی کے ساتھ زندگی کے دن رات گزارنے لگا۔ مجھے بددعائیں کیوں دیں؟ کوئی مہینہ سوا مہینے بعد کا واقعہ ہے کہ میں سویا ہوا تھا تو کسی نے میری پنڈلی پر زور سے کاٹا ‘میں ایک دم چیخ کر اٹھا تو کوئی نہیں تھا‘ بس اس کا ہواؤں اور فضاؤں میں بھیانک قہقہہ اور خطرناک انداز‘ میں ویران ہوگیا‘ غم میں ڈوب گیا‘ میرے انداز سے اسے اور لطف اور مزہ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ تو نے مجھے بددعائیں کیوں دی تھیں اب میں تیرا کوئی پل‘ کوئی سانس ‘کوئی لمحہ سکون کا نہیں رہنے دوں گا۔ تجھے ہمیشہ بے سکون اور بے چین رکھوں گا۔ مجھے تجھ سے بغض ہے‘ عداوت ہے‘ دشمنی ہے ۔میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا :آخرمیں نے خطا کیا کی تھی؟ لیکن اس کا ایک بھیانک قہقہہ سنائی دیااور وہ غائب ہوگیا۔ پھر روزانہ رات کو میرے ساتھ یہی ہونا شروع ہوگیا جب بھی سو جاتامیں درد سے چیختا ‘چلاتا ‘گھبراتا‘ چونکتا اور حیرت انگیز بات ہے کہ یہ جاگتے ہوئے نہیں ہوتا تھا شاید وہ میری نیند کا انتظار کرتا یا مجھ پر خطرناک جادوئی طاقتوں سے نیند مسلط کرتا تھا اس کے بعد وہ میرے جسم کے کسی نہ کسی حصے پر کاٹتا اس کے دانتوں کے پورے نشان ہوتے تھے اور ابھی بھی ہیں اور ان سے خون رستا رہتا ہے‘ کوئی دوایا علاج اس پر اثر نہیں کرتی حتیٰ کہ جوں جوں علاج کرو زخم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے‘ تکلیف بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور درد بہت زیادہ بڑھتا ہے۔ رزق لٹ گیا‘بیٹیوں کو طلاق ہوگئی: میں پریشانی کے عالم میں یہی تکلیف سہہ رہا تھا اور یہی درد نبھا رہا تھا‘ میرے ساتھ گھر کا رزق لٹ گیا‘ میری دو بیٹیوں کو طلاق ہوگئی اور جب بھی یہ طلاق دلواتا تھا مجھے آکر بتاتا تھا کہ یہ میں نے کروایا ہے‘ یہ زمین پر خدا بنا ہوا تھا شاید اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھیل دی ہوئی تھی گھر میں چیزیں چوری ہوجاتی ہیں‘ میرے گھر میں سونے کی کوئی چیز نہیں بچی یہ چرا کر لے جاتا ہے اور واضح کہتا ہے کہ میں نے چرایا اور ہر چرانے کے بعد بتاتا تھا کہ میں نے وہ سونا وہ رقم وہ مال وہ چیزیں عیاشی میں خرچ کی ہیں‘اس کا پل پل میرے لیے اذیت ناک اب تو نامعلوم کتنے سالوں سے میں سو نہیں سکا لیکن یہ ظالم میری اونگھ میں بھی مجھے تکلیف دیتا اور مجھے زخمی کردیتا میں بوڑھا ہوں لیکن سالہا سال کی اس کی اذیتوں نے مجھے وقت سے پہلے اور بوڑھا کردیا ہے اور سالہا سال کی اس کی اذیتوں نے مجھے وقت سے پہلے ویران اور برباد کردیا ہے۔مجھے جنات سے محبت ہے مگر یہ جن قابل نفرت ہے: وہ مجمع کو غم اور دکھ سنا رہاتھا اور بار بار کہہ رہاتھا کہ بادشاہ سلامت میں عالم ہوں‘ میں مفتی ہوں‘ میں نے علم پڑھا ہے ‘فقہ اورمیرےعلم کے مطابق کالا جادو اور کالا جادوگر اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی گردن اتار دی جائے‘ میں خود جن ہوں‘ مجھے جنات سے محبت ہے‘ لیکن یہ جن قابل نفرت ہے‘ یہ جن قابل محبت نہیں ہے‘ بادشاہ سلامت! آپ اس کے ساتھ ہرگز ہرگز ترس نہ کھائیں‘ ہرگز ہرگز رحم نہ کھائیں اور اس کو میرے حوالے کردیں کہ میں اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردوں‘ یہ امت پر احسان ہوگا‘ مظلوموں پر احسان ہوگا اور آپ کا مجھ پر احسان ہوگا ۔وہ بوڑھاعالم مفتی جن رو رہا تھا‘ رو رو کر اپنی فریادیں بیان کررہا تھا کہا کہ مجھے آج پتہ چلا کہ وہ ظالم پکڑا گیا ہے اور پتہ بھی اس لیے چلا کہ میں گزشتہ دو تین دنوں سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوا مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے تو میرا پیچھا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن آج مجھے کیوں چھوڑ گیا پھر مجھے آپ کی طرف سے اطلاع ملی کہ ہر شخص آکر اپنا دکھ بیان کرے میں آج آپ کے سامنے اپنا دکھ اور غم بیان کرنے آیا ہوں بس میرے ساتھ ترس کھائیں اور رحم کھائیں اور مجھے انصاف دلائیں۔ میرا تمام علمی ذخیرہ ضائع کردیا:اس نے میری تمام کتابیں پھاڑ دی ہیں اس نے میرا تمام علمی ذخیرہ ضائع کردیا ہے‘ میرا ہاتھ ابھی تک مفلوج ہے‘ میری آنکھ ابھی تک اندھی ہے‘ مجھے یقین ہے جب یہ قتل ہوگا تب اس کا جادو اور طلسم ٹوٹے گا اور میری آنکھ اور میرا ہاتھ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے آپ سے انصاف چاہیے: وہ بوڑھا عالم جن چیخ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بادشاہ آپ کے دربار میں کسی عالم کا کوئی مقام نہیں کیا؟ آپ کے دربار میں کسی بوڑھے کا کوئی وقار نہیں کیا؟ آپ کے دربار میں کسی مظلوم کی کوئی پکار اور فریاد نہیں؟ مجھے آپ سے بہت کچھ نہیں چاہیے مجھے آپ سے صرف انصاف چاہیے۔ میں بہت نادم ہوں کہ میں شاید آپ کے دربار کی گستاخی کرگیا ہوں میں نے آپ کے ادب کا خیال نہیں کیا لیکن آپ میرے دکھ اور غم کو اگر تولیں گے تو شاید یہ دکھ اور غم سب سے زیادہ بھاری ہوگا اور سب سے زیادہ پریشان کن ہوگا۔ میرے دکھ اور غم میں آپ میرا ساتھ دیں۔ اس دکھ اور غم میں آپ مجھے تنہا نہ چھوڑیں۔ بادشاہ سلامت کیا مجھے آپ اس حالت میں چھوڑ دیں گے؟ کیا آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے؟ مجھے آپ کا ساتھ چاہیے۔ مجھے الجھنوں کا توڑ چاہیے: مجھے غموں سے نجات چاہیے مجھے الجھنوں کا توڑ چاہیے۔ بادشاہ غم اور غصے کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ اس شخص کے حالات سن رہا تھا‘ اب تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید مجمع کے آنسو ہی ختم ہوگئے ہیں اور مجمع رو رو کر ہچکیاں لے لے کر ہلکان ہورہا تھا وہ ظالم جادوگر زنجیروں میں جکڑا سر جھکائے ہوا تھا‘ معلوم یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے جادو کا ہرگُر زنجیروں سے نکلنے کیلئے آزما چکا ہے لیکن اب اس کا ہر گُر‘ جادو کا طلسم اور راز ختم ہوچکے ہیں وہ مخلوق کو گمراہ کرنے والا تھا۔ مخلوق کےساتھ دکھوں اوردردوں کو چننے والا نہیں تھا‘ پھیلانے والا تھا‘ وہ مظلوم بنانے والا تھا‘ وہ ظلم ڈھانے والا تھا وہ دشمنیاں پھیلانے والا تھا وہ گھروں میں لڑائیاں کروا کر آپس میں نفرتیں پیدا کرکے محظوظ ہوتا تھا۔ اس کا پل پل شرارت اور چنگاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اس کا دماغ منفی سوچتا تھا مثبت نہیں سوچتا تھا وہ جانور نہیں تھا بلکہ جانور کتے اور خنزیر سے بدتر تھا وہ سانپ اور بچھو کی طرح تھا کہ بچھو کو ڈسنے سے مزہ نہیں آتا لیکن وہ ڈستا ہے۔آج ظالم کا انجا م اپنی آنکھوں سے دیکھیں: بادشاہ نے جلاد کو بلوایا جلاد فوراً حاضر ہوا پورے مجمع میں کہرام مچ گیا اور انصاف انصاف کی آوازیں لگنے لگیں اور مجمع خوشی کے مارے اچھل رہا تھا کہ آج ظالم کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن اسی دوران ایک عورت بار بار پکار پکار کراپنا غم اور دکھ سنانے کی فریاد کررہی تھی اور وہ چاہ رہی تھی اس کا غم اور دکھ سنا جائے اس کا درد
بھی سنا بھی جائے اور اس کو بھی انصاف دلایا جائے اس ظالم کو ایسے نہ مارا جائے ‘وہ عورت پکار رہی تھی جس طرح اس نے لوگوں کو سسکایا ہے اسی طرح اس کو بھی سسکایا جائے‘ اس نے بادشاہ سلامت کو کہا کہ بادشاہ سلامت پہلے اس کی ایک آنکھ نکالی جائے پھر اس کو تڑپایا جائے پھر چند گھنٹوں کے بعد اس کی دوسری آنکھ نکالی جائے پھر اس کو تڑپایا جائے‘ پھر اس کا ایک کان کاٹا جائے جو بہت شدت سے نہیں کسی کند چھری سے سارا نہ کاٹا جائے ایک ٹکڑا کاٹا جائے پھر اس کو سسکایا اور تڑپایا جائے پھر دوسرا ٹکڑا کاٹا جائے اس طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اس کا کان کاٹا جائے پھر اس کے جسم کے ایک ایک بال کوکھینچا اور ادھیڑا جائے اورپھر اس کے جسم کے ایک ایک روئیں کو زخمی کیا جائے۔ پھر اسی طرح اس کا دوسرا کان کاٹا نہ جائے بلکہ کترا جائے پھر اسی طرح دوسری آنکھ ہونٹ اور ناک الغرض کوئی چیز اس کی کاٹی نہ جائے بلکہ چھوٹے چھوٹے حصوں سے لوہے کی بڑی قینچیوں کے ساتھ کتری جائے تب ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمیں انصاف ملا ہے ۔ یہ جن میری تین بیٹیاں اٹھا کر لے گیا:بادشاہ سلامت آپ خود منصف ہیں ‘ آپ رحم دل ہیں‘ رحم دلی آپ کی نسلوں سے چلتی آرہی ہے‘ آپ شریف ہیں آپ مخلص ہیں۔ یہ جن میری تین بیٹیاں اٹھا کر لے کر گیا ‘میری جوان خوبصورت بیٹیاں‘ میں جننی ہوں‘ میری بیٹیاں بلوغت سے نکل کر شادی کی عمر میں تھیںکہ میری ایک بیٹی کو اٹھا کر لے گیا ‘میری بیٹی اپنے گھر کے درخت کے نیچے بیٹھی تھی اور اپنے خوبصورت لمبے بالوں کو سنواررہی تھی وہ کھڑی ہوکر کنگھی کررہی تھی اور اس کے بال اتنے گھنے اور خوبصورت تھے کہ زمین کو چھو رہے تھے اس دوران میں نے ایک قہقہہ سنا ایک دردناک آواز سنی اور ایک سفاکی اور تیزی کی ایک سیٹی دار لہر سنی جس نے میرے سارے گھر کو سناٹے میں ڈال دیا اور میرا گھر اسی سناٹے میں سہم گیا‘ اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور میری بیٹی کو پکارا اور بس پھر میں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی چیل کسی مرغی کے بچے کو اٹھا کر لے جاتی ہے اسی طرح یہ ظالم اپنے خوفناک پنجوں میں چیختی چلاتی بیٹی کو اٹھا کر لے گیا‘ مجھے آج تک وہ بیٹی نہیں ملی یقیناً وہ میری بیٹی دن رات اسی ظالم کے پاس آگ پر بھن رہی ہے اور اس ظالم کے ظلم میں وہ تڑپ رہی ہے‘ ٹھیک پانچ ماہ کے بعد میری دوسری بیٹی بھی اسی طرح اٹھا کر لے گیا‘ اُس وقت جب وہ نہا رہی تھی مجھے رب نے حسن و جمال دیا ہے اس باحجاب بانقاب جننی نے بتایا۔ میری بیٹیاں بہت حسین و جمیل ہیں پانچ ماہ قبل کا غم مجھے نہیں بھولاتھا کہ یہ میری دوسری بیٹی کو بھی اٹھا کر لے گیا۔ میرا گھر اور نسلیں ویران:میرے گھر میں صف ماتم تھی‘ ویرانی تھی‘ میرا گھر کا ہر فرد رو رہا تھا‘ میرے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ہر بیٹا غم اور انتقام میں ابل رہا ہے‘ اس واقعہ کو صرف انیس ماہ ہوئے ہیں اور میرا گھر اجڑ گیا ہے‘ میری نسلیں ویران ہوگئی ہیں اور میں برباد ہوگئی ہوں میرا کوئی وارث نہیں رہا‘ میرا کوئی ساتھی نہیں رہا‘ میری عزتیں مجھ سے لٹ گئی ہیں‘ میرے بیٹے گھر سے باہر نہیں نکل پارہے‘ وہ کس کو منہ دکھائیں اور کیا منہ دکھائیں‘ ابھی یہ غم ہرا ہی تھا کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد میری تیسری بیٹی جو ابھی کچھ ماہ پہلے بالغ ہوئی تھی اس کو بھی اٹھا کر لے گیا‘ مجھے کوئی خبر نہیں مجھے اس کی شکل یاد ہے‘ مجھے اس کا چہرہ یاد ہے‘ نامعلوم اس نے میری بیٹیوں کو کہاں رکھا ہوا ہے؟ وہ تڑپ رہی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے چہرہ پیٹ رہی تھی اس نے اپنا سینہ چھلنی کیا ہوا تھا وہ پکار رہی تھی کیا بادشاہ سلامت میری بیٹیاں اسی کے پاس رہیں گی اور آپ اس کو قتل کردیں گے‘ کیا بادشاہ سلامت میری بیٹیاں ایسے ہی سسکتی رہیں گی‘ کیا میں غم کے بادلوں میں ایسے ڈھکی ڈھکی مر جاؤں گی؟ کیا میں اپنی نیک شریف بیٹیوں کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤں گی؟ کیا میں اسی طرح سسکتی‘ روتی اورابلتے آنسوؤں کے ساتھ قبر میں چلی جاؤں گی؟ کیا میں ان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کرسکوں گی؟ وہ یہ لفظ کہتے ہوئے رو رہی تھی تڑپ رہی تھی اس کے لفظ عجیب تھے ‘سارا مجمع تڑپ رہا تھا۔ بادشاہ کے طاقت ورمحافظوں نے مجمع کو سنبھالا ہوا تھا ‘ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اس جادوگر کی جاکر گردن مروڑ دیں یا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں یا اس کو قتل کردیں۔ لیکن بادشاہ کے طاقتور محافظوں نے مجمع کو قریب نہیں آنے دیا اور بادشاہ نے اس کو روکا ہوا تھا۔جب جادوگر میری بیٹی کو پھینک گیا: لمحے گزرتے جارہے تھے اس خاتون کی داستان بڑھتی چلی جارہی تھی‘ وہ کہنے لگی: ایک دفعہ اس نے ہمیں سسکانے اور تڑپنے کیلئے درمیانی بیٹی جس کونہاتے ہوئے اٹھایا تھا اس کو ہمارے گھر پھینک گیا اس کا جسم ہر ہر جگہ سے زخمی تھا اور چبایا ہوا تھا‘ وہ سسک رہی تھی وہ بار بار پانی مانگتی تھی وہ بول نہیں سکتی تھی وہ اپنا درد نہیں بیان کرسکتی تھی‘ اس کی زبان پر اس نے جادو کیا ہوا تھا وہ دیکھ رہی تھی اور اس کے احساسات تھے‘ اس کی سمجھ تھی اس کی عقل تھی‘ اس کا شعور تھا لیکن وہ بول نہیں سکتی تھی‘ وہ آنکھوں سے اور ہاتھوں سے اپنا غم سنانے کی کوشش کرتی لیکن پھر وہ رو کر ڈوب ڈوب جاتی تھی‘ وہ تڑپ جاتی تھی تین دن ہمارے گھر میں رہی‘ ہم نے اسے کھلانے پلانے اس کے زخموں پر مرہم لگانے کی بہت
کوشش کی لیکن اس کا کوئی زخم ٹھیک نہیں ہوتا تھا ان زخموں میں زہر بھرا ہوا تھا‘ وہ کھا پی نہیں سکتی تھی‘ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی‘ حسن و جمال ختم ہوچکا تھا‘ اس کے آدھے بال گرچکے تھے۔ اس کا جسم نڈھال ہوچکا تھا وہ کروٹ خود نہیں بدل سکتی تھی‘ بیٹھنا تو دور کی بات ہے‘ وہ ٹانگیں سیدھی نہیں کرسکتی تھی‘ اس کا ہاتھ جہاں پڑا ہوتا تھاو ہیں پڑا رہتاتھا تین دن کے بعد دیکھا کہ وہ گھر میں نہیں ہے ہم نے ادھر ادھر تلاش کیا لیکن وہ تو چل پھر ہی نہیں سکتی تھی۔ بس پتہ چل گیا کہ یہ خبیث جن میری بیٹی کو اٹھا کر پھر لے گیا ہے وہ دراصل ہمیں سسکانا چاہتا تھا‘ تڑپانا چاہتاتھا اور بتانا چاہتا تھا کہ میں طاقت ور ہوں! ہم اس زندگی سے اکتا چکے ہیں: ایک اہم بات اس خاتون نے یہ بتائی کہ ہمارے پورے گھر میں بدبو ہے ایسے جیسے کسی نے بہت بڑی غلاظت ہمارے گھر میں چھوڑ دی ہے۔ ہم نے گھر کو خوب صاف کیاایک ایک کونے کو کریدا کوئی مرا ہوا جانور کوئی غلاظت کچھ بھی نہیں‘ بس سارا دن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گندگی کی آندھی اور طوفان ہمارے گھر میں ہے‘ ہم اس زندگی سے اکتا چکے ہیں ہمارے گھر کا ہرفرد گندگی میں اٹا ہوا ہے میرے بیٹے شرمندہ شرمندہ ہیں‘ ان کے وقت سے پہلے چند ہی مہینوں میں بال سفید ہوگئے ہیں‘ ہمارے گھرمیں کبھی کھانا پکتا ہے کبھی نہیں پکتا‘ اگر پکا ہوا بھی ہوتا ہے تو کسی کا کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا‘ ہر شخص یا ایک دوسرے کا منہ تکتا ہے یا سر نیچا کیے روتا رہتا ہے یا پھر فضاؤں میں گھور گھور کر رب کی مدد اور طاقت کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ وہ جننی رو رہی تھی اس کا رونا میں بیان نہیں کرسکتا وہ جننی تڑپ رہی تھی‘ اس کا تڑپنا الفاظ میں ڈھل نہیں سکتا۔ (جاری ہے)
جھگڑے کا سرے سے خاتمہ
میرے ایک دوست کے گھر ہروقت جھگڑا رہتا تھا‘ ایک مرتبہ پریشان تھا میں نے اسے درس میں بتایا گیا ایک عمل بتایا کہ جیسے ہی جھگڑا شدت اختیار کرلے اس وقت یہ الفاظ پڑھ کر پھونکنا‘ اس نے ایسا ہی کیا‘ صرف پندرہ منٹ کے اندر جھگڑا ختم ہوگیا اور ایسا ختم ہوا کہ جیسے پہلے کبھی اس گھر میں جھگڑا ہوا ہی نہیں اور حالات ایک سال گزر جانے تک پرسکون ہیں۔ وہ الفاظ یہ ہیں:۔ وَاللہُ اَشَدُّوْ جہاں جھگڑا ہورہا ہو‘ یہ الفاظ بار بار پڑھ کر پھونک ماریں۔
بادشاہ اور چار چور
سلطان محمود غزنوی اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا اس کی عادت تھی کہ وہ راتوں کو بھیس بدل کر شہر کی گلیوں میں جائزہ لیتا کہ رعایا کس حال میں ہے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سلطان محمود غزنوی اپنے معمول کے مطابق بھیس کر شہر میں پھر رہا تھا کہ اسے ایک جگہ پر چند افراد کٹھے جاتے ہوئے دکھائی دئیے جو کسی جگہ چوری کرنے کی نیت سے جارہے تھے۔
سلطان محمود غزنوی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر چور خوفزدہ ہوگئے کہ یہ آدھی رات کے وقت کون اس طرف آرہا ہے چونکہ انہوں نے سلطان کو بالکل نہیں پہچانا تھا اس لیے کہنے لگے تم کون ہو؟ سلطان نے کہا میں بھی تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں‘ چوروں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی ہماری طرح کا کوئی چور ہی ہے جو آدھی رات کے بعد چوری کی نیت سےنکلا ہے چنانچہ انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے ان سے کہا تنی رات گئے تم کس ارادے سے پھر رہے ہو؟ وہ کہنے لگے اسی ارادے سے جس ارادے سے تم پھر رہے ہو یعنی چوری کی نیت سے۔ سلطان نے کہا اگر چوری ہی کرنی ہے تو پھر کسی ایسی جگہ کرو جہاں سے اس قدر دولت ہاتھ لگ جائے جو ساری عمر کیلئے ہمیں کافی ہو اور پھر کبھی چوری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ میرا مشورہ ہے کہ شاہی محل لوٹتے ہیں جہاں سے ہمیں بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگ سکتا ہے۔ چوروں نےسنا تو بہت خوش ہوئے اور سلطان کی جرأت و بہادری پر اش اش کر اٹھے اور کہا واہ بھئی واہ تم تو بڑے بہادر اور جرأت مند ہو کیونکہ شاہی محل میں چوری کرنا بڑی ہمت اور حوصلے کاکام ہے اور تم اس بات کو کرنے میں ذرا بھی نہیں گھبرائے ہم تمہیں آج سے اپنا سردار مانتے ہیں تم جو حکم دو گے ہم اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جو کام تم نے شاہی محل والا بتایا ہے وہ بڑا مشکل ہے۔ سلطان نے کہا میرے ہوتے ہوئے تم ذرا نہ گھبراؤ اب تیاری پکڑو اس مقصد کیلئے پہلے ہم ایک منصوبہ بنالیتے ہیں تاکہ آسانی رہے ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا کمال بیان کرے کہ وہ کس خصوصی خوبی کامالک ہے۔ان سب نے باری باری اپنا اپنا کمال بتانا شروع کیا کہ ایک چور کہا کہ میں یہ کمال رکھتا ہوں کہ جس جگہ خزانہ رکھا گیا ہو مجھے اس جگہ کی مٹی سے خزانے کی خوشبو آجاتی ہے۔ دوسرا چور کہنے لگا مجھے یہ کمال حاصل ہے کہ اگر سخت اندھیری رات میں بھی کسی کو ایک مرتبہ دیکھ لوں تو پھر اس کی شکل کبھی نہیں بھولتا اور دن کی روشنی میں بغیر کسی مشکل کے اسے شناخت کرلیتا ہوں۔ تیسرے چور نے کہا میں یہ خصوصی کمال رکھتا ہوں کہ مجھے کتے کی زبان سمجھ آتی ہے۔ چوتھا چور بولا: مجھے یہ کمال حاصل ہے کہ چاہے محل کی دیوار کتنی اونچی ہو اگر میں کمند پھینکوں تو وہ فوراً دیوار کے اوپر جاکر فٹ ہوجاتی ہے جس کے باعث ہم آسانی کے ساتھ محل کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔ اب چور کہنے لگے: سردار! اب تم اپنا کمال بتاؤ‘ سلطان بولا: مجھ میں یہ خوبی ہے کہ اگر مجرم گرفتار ہوں اور ان کو موت کی سزا کا حکم ہو پھر جلاد ان کی گردنیں اتارنے کیلئے تختہ دار پر بھی لے آئے تو عین اس موقع پر اگر میں اپنی ڈاڑھی ہلادوں تو مجرم اسی وقت قید سے چھوٹ جائیں اور ان کی جان بخشی ہوجائے۔ سب چور یہ سن کر بڑے حیران ہوئے اور کہا اس کمال کے ہوتے ہوئےتو ہمیں ذرا بھی ڈر محسوس نہیں کرنا چاہیے اس کے بعد وہ سب شاہی محل کی طرف چوری کے ارادے سے چل پڑے کہ راستے میں ایک کتا ان کی طرف دیکھ کر بھونکا چور نے بتایا کہ ساتھیو! کتے نے جو کچھ کہا ہے اسے سن کر تو میں بھی بڑا حیران ہورہا ہوں اگر تم سنو تمہیں یقین ہی نہ آئے باقی چوروں کو بھی تجسس ہوا کہنے لگا بتاؤ تو سہی کتا کیا کہہ رہا ہے؟ وہ بولا کتا کہہ رہا ہے کہ ان پانچوں میں سے ایک بادشاہ ہے‘ یہ سن کر سب ہنسنے لگے اور بولے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے ایک بادشاہ ہے۔ وہ چور کہنے لگا بے شک تم اس بات پر ہنسو لیکن کتا یہی کہہ رہا ہے۔ ان سب نے اپنے دل کو تسلی دینے اور بات کو اپنے مطلب کے مطابق سمجھتے ہوئے کہا کہ کتے کے کہنے کامطلب ہے کہ یہ پانچوں شاہی خزانہ لوٹنے جارہے ہیں پانچوں بادشاہ ہوں گے۔ یہی باتیں کرتے ہوئے وہ شاہی محل پہنچ گئے اب کمند ڈالنے والے چور نے اپنا کمال دکھایا۔ اس چور نے ایک ہی بار جو کمند پھینکی تو وہ محل کی دیوار کے اوپر جالگی اس کے بعد سب باری باری دیوار پار کرگئے۔ اب خزانہ سونگھنے والے چور کی باری تھی چنانچہ اس نے اپنا کمال دکھایا اور سب نے مل کر وہاں سے خزانہ نکال لیا اور جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے خزانہ لے کر باہر نکل آئے ابھی صبح نہیں ہوئی تھی اور رات کا اندھیرا باقی تھا وہ فوراً شہر کی حدود سے باہر نکلے اور ایک جنگل میں بیٹھ کر خزانہ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔
مگر سردار نے کہا کہ ابھی ہم خزانہ یہاں دفن کردیتے ہیں جب سپاہی خزانہ کی تلاش میں ناکام ہوں گے تو نکال کر تقسیم کرلیں گے۔ جب خزانہ دفن کرکے سب گھروں کو جانے لگے تو سردار نے سب سے ان کے گھروں کے ایڈریس لے لیے تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ سلطان اپنے محل واپس آگیا‘ صبح اچانک شور اٹھا کہ شاہی خزانہ لوٹ لیا گیا‘ فوری طور پر سپاہی چوروں کی تلاش میں بھاگے۔ سلطان نے سپاہیوں کے سربراہ کو چاروں چوروں کے نام اور پتہ بتائے اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ سپاہی فوراً چاروں کو پکڑ لائے۔ چور حیران کہ آخر انہیں ہمارا پتہ کیسے ملا؟ ہماری مخبری کیسے ہوئی‘ آخر ہمارا سردار کہاں ہے؟ خزانہ کی چوری کے جرم میں انہیں سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ یہ حکم سن کر ان کے اوساں خطا ہوگئے‘ آپس میں کہنے لگے: ہمارا سردار ہوتا تو ایسے وقت میں اپنا کمال دکھاتا‘ افسوس ہمارا سردار نہیں پکڑا گیا۔ اب تو وہ خود ہی اکیلا خزانہ پر قبضہ جمالے گا۔ جب انہیں تختہ دار پر لے جایا جانے لگا تو حکم ملا کہ چوروں کو سلطان کے سامنے لایا جائے اگر وہ کوئی آخری خواہش کرنا چاہیں تو مرنےسے پہلی پوری کی جاسکے۔ جب چور سلطان کے سامنے پیش کیے گئے تو سلطان محمود غزنوی پورے شاہی لباس میں تھا‘ چاروں چور نظریں جھکائے کھڑے تھے‘ اچانک اس چور کی نظر سلطان پر پڑی جو اندھیری رات یں بھی ایک بار دیکھی ہوئی شکل کبھی نہیں بھولتا تھا اور دن میں شناخت کرنا کوئی مشکل نہ تھا۔ اس نے پہچان لیا کہ تخت پر جو شخصیت جلوہ افروز ہے وہی رات کے وقت ہمارا ساتھی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنے ساتھی چور کے کان میں کہا اے دوست! رات کو کتے کی کہی ہوئی بات اب سمجھ آئی ہے‘ کتا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ ان پانچوں میں ایک بادشاہ ہے یہ جو تخت پر بیٹھا ہے رات کو یہی ہمارا ساتھی تھا‘ دوسرا چور اس کی بات سن کر کہنے لگا: ارے احمق! کیا بکواس کرتے ہو‘ رات کو تم نے ایک کتے کی بات پریقین کرکے چور کو بادشاہ بنادیا اب تم بادشاہ کو چور کہہ رہے ہو لگتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے تم اپنے ہوش میں نہیں ہو۔ سلطان محمود غزنوی نے ان کی آپس میں کھسر پھسر سن رہا تھا بولا تم لوگوں نے کیا کھسر پھسر لگارکھی ہے جس چور نے بادشاہ کو پہچان لیا تھا فوراً چند قدم آگے بڑھا اپنے ہاتھ باندھ کر بولا۔ اے ہمارے سردار! ہم سب نے اپنا اپنا کمال دکھادیا‘ اب تم اپنی ڈاڑھی ہلاؤ اور ہمیں موت کے منہ سے بچاؤ۔سلطان اس چور کی بات سن کر ہنس پڑا اور کہا واہ بھی واہ! تم نے مجھے پہچان لیا اور اپنا کمال دکھا دیا اب میں اپنا کمال دکھاتا ہوں اور اپنی ڈاڑھی کو ہلاتا ہوں‘ جاؤ تم سب آزاد ہو‘ چوروں نے اپنی رہائی کا حکم سنا تو بڑے متاثر ہوئے اور اسی وقت سلطان کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور آئندہ چوری سے توبہ کی اور ہمیشہ کیلئے نیکی کا راستہ اختیار کرنے کا سچا وعدہ کرکے شاہی دربار سے رخصت ہوگئے۔
چوری سے مکمل حفاظت
میرے شوہر صاحب کی موٹرز کی دکان ہے‘ ایک سال پہلے شوہرصاحب انتہائی پریشانی کی حالت میں مجھ سے فرمانے لگے کہ جس علاقہ میں ہمارا شوروم ہے وہاں پر ڈاکے بہت زیادہ ڈلنے شروع ہوگئے ہیں ہر دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی شو روم لوٹ لیا جاتا ہے‘ ان دنوں ہم نے نیا نیا عبقری رسالہ پڑھنا اور درس سننا شروع کیا تھا۔ میں نے اپنے شوہرصاحب کو تسلی دی اور انہیں عبقری رسالہ میں سے ایک دعا پڑھ کر سنائی کہ آپ بھی حفاظت کی نیت سے یہ دعا پڑھیں میں بھی گھر میں پڑھ کر حفاظت کی نیت سے گھر بیٹھے شوروم کی طرف منہ کرکے پھونک دیا کروں گی۔ میرے شوہرصاحب نے یہی دعا پڑھنا شروع کردی‘ میں بھی روزانہ صبح ان کی گاڑی پر یہ دعا پڑھ کر پھونک مارتی اور ایک تسبیح پڑھ کر اپنے شوروم اور اس پورے بازار کی ہر دکان کی نیت کرکے دم کردیتی۔ میرے شوہر صاحب بھی شوروم پر جاکر یہی دعا پڑھ کر ہر چیز پر دم کرتے اور ساتھ سارے بازار کی نیت کرتے۔ چند دن گزرے‘ چند ہفتے اور پھر مہینے گزر گئے اس کے بعد آج تک اس بازار کے کسی دکان میں کبھی ڈاکہ نہیں پڑا نہ کبھی کسی کی چھوٹی موٹی چوری ہوئی۔
دعا یہ ہے:۔
بِسْمِ اللہِ عَلٰی دِیْنِی وَ نَفْسِی وَ وَلَدِیْ وَ اَھْلِیْ وَ مَالِیپھر
کچھ عرصہ بعد مجھے ان چوروں کی فکر لاحق ہوگئی‘ میں تہجد میں اٹھتی اُن چوروں کیلئے دعا کرتی کہ اے اللہ تعالیٰ ان کے دل بدل دے‘ کیسی حماقت کرتے ہیں‘ لوٹ کا مال وہ اپنی اولاد یا خاندان کو کھلا کر اپنا سب کچھ برباد نہ کربیٹھیں‘ اے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔
حسد ایک لعنت
کہیں پڑھا تھا کہ ’’حسد ایسا زہر ہے جسے لوگ پیتے خود ہیں لیکن اس سے مرنے کی امید دوسروں کی کرتے ہیں‘‘ آج کل تو لوگ حسد میں آکر دوسروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں‘ لوگ اپنے محسن و ممنون کو بھی معاف نہیں کرتے یہ جو واقعہ میں لکھ رہی ہوں یہ بالکل سچا ہے اور ان صاحب نے خود میرے بھائی کو سنایا ہے۔ ہمارے پڑوس میں کچھ لوگ رہتے ہیں ایک بھائی جوانی میں بجلی کے کرنٹ سے جاں بحق ہوگئے تھے ان کے بچے یتیم ہوگئے تھے پھر ماں نے دوسری شادی کرلی‘ یہ لڑکے مزدوری کی تلاش میں بڑے شہر چلے گئے اور وہاں محنت مزدوری کرتے رہے‘ آج اس شہر میں ان کا اپنا ٹھیک ٹھاک کاروبار ہے۔ انہوں نے چند سال پہلے اپنے چند غریب رشتہ داروں کو بھی اپنی ہاں ملازمت دی اور انہیں بھی یہ کام سکھانا شروع کردیا۔ یہ غریب رشتہ دار ان کے ساتھ کام کرتے رہے‘ کام کرتے ہوئے دولت کی ریل پیل خوب دیکھی اور ان کے دل میں حسد پیدا ہوگیا کہ یہ لوگ اتنے آگے نکل گئے اور ہم ان کے ہاں مزدوری کررہے ہیں‘ ان غریب رشتہ داروں نے ایک مرتبہ ان صاحب کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی اورکھانے میں انہیں ایسی چیزیں کھلادیں جس کے ذریعےان پر جادو کیا گیا تھا‘ انہوں نے بتایا کہ جونہی میں نے کھانے کے دو نوالے لیے مجھے یوں لگا جیسے میں نے دہکتی ہوئی آگ اپنے اندر اتار لی ہو میرے اندر آگ لگ گئی تو میں نے ایک دم اپنے سامنے رکھا ہوا شربت کا گلاس اٹھالیا جب اس کو پیا تو یوں لگا جیسے میں تیزاب پی رہا ہوں‘ گلاس کے پیندے میں رنگین دھاگے پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ساری رات میں تڑپتا رہا اور پھر چند دنوں بعد مجھے ان دیکھی مخلوق سے مار پڑنے لگی‘ میں آیۃ الکرسی پڑھتا‘ قرآنی آیات‘ مسنون دعائیں پڑھتا تو اور زیادہ مارتے‘ مجھے ایسے لگتا کہ جیسے میرا سارا جسم چورا چورا ہوگیا ہو‘ میری دکان کے اندر لوہے کی بڑی بڑی چیزیں پڑی ہوئیں تھیں وہ مجھے ان چیزوں سے مارتے‘ ایک دن انہوں نے مجھے اتنا مارا مجھے لگا آج یہ لوگ مجھے جان سے مار دیں گے‘ تو میں وہاں سے بھاگا‘ میں آگے آگے اور یہ چیزیں میرے پیچھے پیچھے‘ لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے اس کو کیا ہوگیا یہ کیوں پاگلوں کی طرح بھاگ رہا ہے؟ میں روتا ہوا‘ اللہ سے مدد مانگتا ہوا‘ بھاگتا رہا تو قریب ہی ایک جامع مسجد میں پہنچ گیا‘ وہاں موجود قاری صاحب نے میری حالت دیکھی اور مجھے ان دیکھی مخلوق سے پٹتا دیکھ کر مجھ پر قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر پھونکنا شروع کردیا‘ مگر میری حالت نہ سدھری‘ اور تکلیف مزید بڑھ گئی۔ بالا آخر میں دوسرے شہر گیا‘ وہاں موجود ایک اللہ والے نے میرا کئی مہینوں پر محیط علاج کیا اور پھر مجھے ان چیزوں سے نجات مل گئی۔ اب میں صحت مند ہورہا ہوں۔ اس شخص نے میرے بھائی سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی سے نیکی کرو تو برا کبھی نہیں پاؤ گے مگر مجھے میری اچھائی اور نیکی کا یہ صلہ ملا‘ میرے بھائی کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے بندے پہلے صحت مند اور خوبصورت تھے‘ اب میں نے انہیں دیکھا کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے‘ سر کے سارے بال غائب‘ آنکھوں کے گرد بڑے بڑے حلقے اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ہیں تو میں نے ان سے ان کی خراب صحت کا حال پوچھا تو انہوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ اب تو میں بہت بہتر ہوچکا ہوں اور دن بدن بہترہورہا ہوں۔ حالانکہ ساری دنیا کہتی تھی کہ تجھ پر جو عمل ہوا ہے وہ تیری بھیانک موت کے بعد ہی ختم ہوگا۔ مگر اللہ نے مجھے صحت دی اور بہترین صحت دے دی ہے‘ میرا کاروبار پھر سے چمک اٹھا ہے‘ وہ حاسدین آج بھی دربدر کے دھکے کھارہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ آخر ہم جن کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں آخر وہ حسد میں کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ اللہ ہم سب کو حاسدین سے بچائے۔
حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ
حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑی شخصیت اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چشم وچراغ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ علم، زُہد‘ تقویٰ اور ان گنت فضائل آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اندر بدرجہ اُتم موجود تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صداقت اور پارسائی کا یہ عالم تھا کہ آج تک آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک نام پاک کے ساتھ ’’صادق‘‘ لازمی جزو بن گیا ہے۔ ابوشاکر نامی شخص آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’مجھے میرے معبود (اللہ) کی جانب رہنمائی فرمائیے‘‘ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’بیٹھ جاو‘‘ اچانک آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اپنے ایک بیٹے پر پڑی جو کہ انڈے کواٹھائے ہوئے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے انڈا لیا اور ابوشاکر سے ارشاد فرمایا: ’’یہ (انڈا) ایک قلعہ (کمرہ) ہے جس کے چاروں طرف ایک دیوار ہے‘ اس کی اندر کی حالت نظر نہیں آرہی‘ اوپر کا چھلکا سخت ہے اور اسکے اندر ایک باریک پردہ ہے جس کے اندر پگھلا ہوا سونا اور چاندی ہے (یعنی پیلے اور سفید قسم کے دو پانی ہیں) جو آپس میں مخلوط (مکس) نہیں ہوتے نہ کوئی اصلاح کرنے والا اندر سے باہر آیا ہے جو یہ بتائے کہ اس نے اندر اصلاح کی ہے نہ کوئی خراب کرنے والا اس کے اندر داخل ہوا ہے جو یہ بتائے کہ یہ خراب ہے اور اندر کسی کو معلوم نہیں کہ اس سے نر پیدا ہوگا یا مادہ‘ اچانک یہ پھٹتا ہے (اور) مور کی طرح کا رنگ برنگا چوزہ باہر نکل آتا ہے‘ تیرا کیا خیال ہے کیا اس کوئی منتظم (انتظام کرنے والا) اور مدبر (تدبیر کرنےوالا) ہے؟‘‘ امام رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نورانی کلام سن کر ابوشاکر کچھ دیر سرجھکائے سوچتا رہا‘ پھر کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اسی ضمن میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ہی فرمان ہے کہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے (اللہ) کو کیسے پہچانا؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے ایک ایسا چکنا اور صاف قلعہ (انڈا) دیکھا جس میں نہ کہیں شگاف تھا نہ دروازہ‘ اوپر پگھلی ہوئی چاندی (سفید جوس) کی قلعی تھی اور اندر پگھلا ہوا سونا (زردی) تھی۔ اس کے اندر اچانک مور‘ گدھ اور چڑیاں نکل پڑیں۔ پس میں نے جانا کہ ضرور اس کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ جب انڈا ہر طرف سے بند تھا تو پرندے کے بچے کا اندر ہی اندر پرورش پانا اور پھر باہر نکلنے کے وقت چھلکے کو اپنی چونچ سے توڑ کر باہر نکلنا بتاتا ہے کہ ضرور کوئی منظم اور مدبر ہے جو سب کام کررہا ہے اور وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔
چاول اور حلیم والے نے دولت پائی
میں ایک غریب آدمی ہوں‘ میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں‘ گزر اوقات کیلئے ریڑھی پر حلیم اور چاول بیچتا ہوں‘ چاول اور حلیم بیچتا ہوں‘ چاول اور حلیم کی تیاری سے لےکر اس کو فروخت کرنا میرا ہی کام ہے‘ دن بھر میں سو دو سو روپے بچا لیتا ہوں‘ بس یہی میری کل آمدنی ہے اور اسی میں گھر چلا رہا ہوں‘ میری بیوی کا ایک عرصہ پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ دونوں بیٹیاں اور بیٹا جوان ہوچکے تھے‘ بیٹا بھی ایک دکان میں کام کرتا ہے‘ وہ ایک کمزور جسم کا شریف سا نوجوان ہے‘ اس نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے‘ اس سے آگے میں اسے پڑھا نہیں سکا‘ دونوں بیٹیاں دینی تعلیم حاصل کرچکی ہیں‘ دونوں انتہائی سُگھڑ اور شریف ہیں‘ ان کی تربیت بالکل مختلف انداز میں ہوئی ہے‘ انہوں نے کبھی دوپٹہ سر پر لیے بغیر گھر سے قدم بھی نہیں نکالا ہوگا لیکن بدقسمتی سے دونوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کیچڑ میں کھلے ہوئے کنول کی طرح تھیں‘ خدا نے دونوں کو بہت اچھی صورت سے نوازا تھا‘ غریبوں کا فخر کبھی ان کیلئے عذاب بھی بن جاتا ہے‘ طاقت دولت مندوں کیلئے ہوتی ہے اور عذاب غریبوں اور کمزوروں کیلئے‘ میری بیٹیوں کا حسن بھی ہمارے لیے عذاب ہوگیا تھا‘ نجانے کتنی بُری نگاہیں ان دونوں کی طرف اُٹھا کرتیں اور دونوں نے کس طرح خود کو بچا بچا کر رکھا ہوگا‘ محلے ہی کے کئی غنڈے ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے انہیں معلوم تھا کہ ان کا باپ بیچارہ ریڑھی پر حلیم چاول بیچتا ہے‘ کمزور اور بوڑھا ہے‘ ہمارا کچھ نہیں کرسکے گا اس لیے ان کے حوصلے بڑھتے چلے جارہے تھے‘ وہ میری بچیوں کو آتے جاتے تنگ کرنے لگے‘ یہ جو کہانی آپ کو سنا رہا ہوں اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ ہمارے پورے پس منظر سے واقف ہوجائیں۔ ایک دن میری بیٹی روتی ہوئی گھر میں آئی اور اتفاق سے میں گھر میں ہی تھا اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آج تو غنڈے نے انتہا ہی کردی اس نے سنسان گلی دیکھ کر میرا ہاتھ تھام لیا‘ میرا خون کھول کر رہ گیا میں ایک بے بس اور کمزور انسان تھا اگر میں اس کے خلاف واویلہ بھی کرتا تو آخر کیا ہوتا؟ میں یہاں اپنی ایک عادت کا ذکرکرنا مناسب سمجھوں گا کیونکہ میری اس کہانی کا محور میری وہی ’’عادت‘‘ ہے چلتے پھرتے‘ اٹھتے بیٹھتے میں ہروقت درودشریف پڑھا کرتا ہوں اس واقعے کے بعد میں نے اور کثرت سے درودشریف پڑھنا شروع کردیا‘ میں نے دونوں بیٹیوں کو سختی سے ہدایت کردی کہ وہ کسی بھی حال میں اکیلی نہ نکلا کریں میں نے اپنے بیٹے کو اس واقعہ کے بارے میں نہیں بتایا وہ لاکھ شریف اور کمزور سہی لیکن اپنی بہن کے ساتھ کسی کی غنڈہ گردی برداشت نہیں کرپاتا۔ ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ ایک دن اچانک ایک پرانے دوست میرے گھر آگئے‘ وہ ہمارے ہی قبیلے(ذات) سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی شریف انسان تھے‘ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے ہم بہت دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ان کے دوبیٹے تھے‘ دونوں نیک پڑھے لکھے اور برسر روزگار‘ میرے دوست اپنے دونوں بیٹوں کیلئے رشتے کی تلاش میں تھے کہ انہیں میرے گھر کا خیال آیا‘ وہ میرے پاس اپنے بیٹوں کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ کیا بڑی بات تھی! خدا نے بغیر کسی محنت کے اتنا بڑا کام کردیا‘ میں نے اپنے تینوں بچوں سے مشورہ لے کر ہاں کردی۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوگیا تھا کہ حیرت ہونے لگی‘ فوری تاریخ بھی مقرر ہوگئی‘ اب سوال یہ تھا کہ شادی کیلئے پیسے کہاں سے آئیں‘ دو، دو بیٹیوں کی شادیاں تھیں‘ اخراجات تو ہونے ہی تھے اور میرے پاس تھا ہی کیا؟ کچھ بھی نہیں‘ گھر میں مشکل سے بیس سے پچیس ہزار ہونگے ان پیسوں سے کیا ہونے والا تھا‘ میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اپنی ریڑھی اور دوسرا سامان بھی فروخت کردوں گا لیکن اس سے بھی کیا ہوتا‘ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یا ہے یہ 27 اکتوبر 2007ء کا دن تھا‘ مغرب کے بعد میں اپنے گھر بیٹھا درودشریف پڑھ رہا تھا اور ساتھ آنے والے حالات کے بارے سوچ رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی‘ دروازہ کھولا تو ایک اجنبی کو سامنے پایا‘ ان کے چہرے پر خاص قسم کا سکون‘ ٹھہراؤ اور نور تھا۔ جس نے پہلی نگاہ میں ہی مجھے متاثر کردیا تھا‘ میں سوالیہ نگاہوں سے ان صاحب کی طرف دیکھنے لگا: ’’’کیا آپ کا نام شیخ انیس ہے؟‘‘ ان صاحب نےپوچھا۔ ’’جی‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’کیا آپ حلیم چاول کی ریڑھی
لگاتے ہیں‘‘ اس نے دوسرا سوال کیا۔ میں نے کہا ’’جی‘‘ پھر اجنبی نے کہا: ’’میں آپ کے صرف دو منٹ لوں گا‘ آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے‘‘ میری حیرت بڑھتی جارہی تھی‘ نہ جانے وہ کون صاحب تھے‘اور مجھ غریب سے ایسا کون سا کام پڑگیا تھا‘ لیکن دیکھنے سے معقول انسان دکھائی دے رہے تھے اس لیے میں انہیں اپنے گھر لے آیا۔ ’’اب بتائیں کیا آپ پر اتنے روپوں کا قرض چڑھا ہوا ہے‘‘ انہوں نے دریافت کیا اور مزید بولے ’’اوربچیوں کی شادیوں کیلئے آپ کو اتنی رقم کی ضرورت ہے‘‘ میں حیران رہ گیا انہوں نے اتنی ہی رقم بتائی جتنی مجھے ضرورت تھی ’’جی ہاں!‘‘ لیکن یہ سب کیا ہے؟ آپ کو کیسے معلوم ہوا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یہ لیں پیسے‘‘ انہوں نے اپنی جیب سے ایک موٹا سا لفافہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا‘ ’’گن لیں یہ اتنی ہی رقم ہے جتنی آپ کو ضرورت ہے‘‘ ’’لیکن کیوں؟ آپ اتنی زیادہ رقم مجھے کیوں دے رہے ہیں‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا: ’’میں آپ کو نہیں دے رہا بلکہ یہ پیسے آپ کیلئے بھیجے گئے ہیں‘‘ میں مزید حیرانی کے سمندر میں ڈوب گیا اور پوچھا ’’کس نے بھیجے ہیں‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’آپ کثرت سے درودشریف پڑھا کرتے ہیں نا؟‘‘ میں نے کہا: ’’جی‘‘ لیکن یہ تو یا میں جانتا ہوں یا اللہ تعالیٰ‘‘ وہ مزید بولے: ’’جن پر آپ روزانہ کثرت سے درودشریف بھیجا کرتے ہیں وہ بھی تو جانتے ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اتنی رقم شیخ انیس کو دے کر آؤں‘‘ میں تڑپ کر رہ گیا‘ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اللہ اللہ میرے حضور نبی کریم ﷺ کو میرا اتنا خیال‘ میری اتنی دل جوئی‘ میرے ساتھ اتنی ہمدردی‘ میرے ساتھ وہ نورانی شخصیت بھی رو دی۔ وہ صاحب میرے اصرار کے باوجود بھی نہ رکے‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے حکم ملا وہ میں نے پورا کردیا ہے‘ میری ڈیوٹی اتنی ہی تھی‘ میں نے اپنا فرض ادا کردیا‘ اب بخوشی اپنی بچیوں کی شادیاں کردیں۔ قارئین! مجھے وہ دن کبھی بھولے نہیں بھولتا‘ درود پڑھتا ہوں تو اکثر آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے ہیں۔ میں نے بہترین طریقے سے اپنی بچیوں کی شادیاں کیں‘ میں اب بہت مطمئن ہوں‘ میرے گھر میں سکون ہے‘ میرے دل میں سکون ہے۔ مجھے یہ سب کچھ میرے حضور نبی کریم ﷺ کی نگاہ کرم سے عطا ہوا ہے اور میں یہ تمام واقعہ صرف اس لیے عبقری کیلئے بھیج رہا ہوں کہ آپ بھی درود پاک کا گلدستہ اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں بھیجتے رہیں پھر دیکھیں آپ کے بگڑے کام کس طرح سنورنے لگتے ہیں۔
دانت درد کی آزمودہ دعا
دانت درد کی آزمودہ دوا:۔
امام بیہقی حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے دانت درد کی شکایت کی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک ان کے رخسار پر جس میں درد تھا رکھ کر سات مرتبہ پڑھا:۔
ترجمہ: اے اللہ جو تکلیف یہ شخص محسوس کررہا ہے اس کو اس کی سختی سے دور فرما دیجئے‘ اپنے نبی (ﷺ) کی دعا سے جو آپ کے نزدیک بابرکت ہے۔‘‘ دست اقدس ابھی اٹھایا بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے درد کو رفع فرما دیا۔
درس کی برکت
ہمارے بہت سارے مسائل تھے اور میری بیوی کو جنات کا مسئلہ لاحق تھا‘ وہ پہلے بالکل ٹھیک تھی‘ اچانک اس پر جنات حاضر ہونا شروع ہوگئے‘ بہت علاج‘ دم‘ دھاگے کروائے مگر تھوڑی دیر کیلئے فائدہ ہوتا لیکن دوبارہ پھر وہی مسئلہ شروع ہوجاتا‘ جب مجھے عبقری کا ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا تو میں تسبیح خانہ میں آیا‘ آپ کا درس سنا تو مزید درس سننے کا شوق ہوا‘ دفتر ماہنامہ عبقری سے درس والا میموری کارڈ خریدا سارا دن موبائل میں درس لگا کر سنتا رہتا‘ میرے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے‘ نماز پڑھنا شروع کردی۔ اعمال پر لگ گیا‘ دفتر عبقری فون کیا‘ خوش قسمتی سے آپ سے ملاقات کا وقت مل گیا‘ مقررہ دن پر آیا‘ آپ نے بیوی کیلئے افحسبتم اور اذان کا وظیفہ دیا۔ پڑھنا شروع کیا‘ ماشاء اللہ بہت زیادہ فائدہ ہونا شروع ہوگیا‘ بیوی کی طبیعت میں بہت بہتری ہوئی اور جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے ہم یہی وظیفہ پڑھتے اور بیوی فوراً ٹھیک ہوجاتی ہے‘ بیوی اب تقریباً بالکل ٹھیک ہوچکی ہے کبھی کبھار مسئلہ ہوتا ہے تو میں خود پڑھتا ہوں‘ کئی بار وہ جن حاضر ہوا ہے اور کہتا ہے میں نہیں آنا چاہتا مجھے بھیجا جاتا ہے میں نے اس کو کہا میں مان لیتا ہوں تجھے بھیجتے ہیں لیکن تیرے آنےسے ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو تسبیح خانہ شیخ الوظائف کے پاس چلا جا وہ تیری جان اس عامل سے چھڑوادیں گے جس نے تجھے قید کیا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ آیا میں نے آپ کا ویڈیو درس چلا دیا آپ کو دیکھتے ہی بہت گھبرایا‘ چلایا اور بھاگ گیا۔الحمدللہ! آپ کے بتائے وظیفے اور درس سے بہت برکت ہوئی ہے۔آپ کی کوششوں اور دعاؤں نے ہماری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ میں بیرون ملک رہتا ہوں‘ ہم تمام گھر والے نمازی ہوگئے ہیں اور آپ کے درس کی برکت سے پاکستان میں بھی تمام گھر والے نماز پڑھ رہے ہیں ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔
نارمل ڈیلیوری کیلئے درود شریف
میرا پہلا لڑکا آپریشن سے پیدا ہوا‘ وہاں موجود گائنا کالوجسٹ نے بتایا کہ باقی آپ کے مزید دو بچے پیداہوسکتے ہیں مگر ہربار آپریشن ہی ہوگا۔ میرے والد صاحب نے میرپور خاص(سندھ) کے ایک گاؤں میں ایک کیلے کا باغ ٹھیکے پر لیا اور ہمیں وہاں جاکر رہنے کا حکم ہوا۔ دل تو نہیں چاہتا تھا کیونکہ ایک عرصہ ہوگیا کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے باامر مجبوری وہاں چلے گئے‘ بیوی حمل سے تھی اور نواں مہینہ چل رہا تھا چند دن ہی گزرے تھے کہ بیوی کو رات کے وقت شدید درد ہوا‘ اس گاؤں میں تو کیا دور دور تک کسی نرس یا ڈاکٹر کا نام و نشان نہ تھا‘ بڑی پریشانی ہوئی‘ بیوی تکلیف سے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی‘ ایک دوست کو فون کرکے ٹیکسی لانے کو کہا‘ ٹیکسی آتے ہوئے بھی بڑی دیر ہوئی ایک ایک لمحہ قیامت بن کر گزر رہا تھا‘ بہرحال سواری پر سوار ہوئے‘ بیوی تکلیف سے فٹ بھر اوپر اٹھ رہی تھی‘ میں نے اس کو سنبھالنے کیلیئے اس کا سر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا اور بے بسی سے اپنی بیوی کو تڑپتا ہوا دیکھ رہا تھا‘ ایک ایک لمحہ صدیوں پر محیط لگ رہا تھا‘ شہر وہاں سے بارہ میل دور تھا‘ ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بس اب میری بیوی کی آخری گھڑیاں چل رہی ہیں‘ بس اللہ کا کرم ہوگیا‘ میری زبان پر درودشریف جاری ہوگیا‘ میرے ذہن میں درودشریف کے فضائل جو کتابوں میں پڑھے یا علماء کرام سے سنے آنے لگے‘ میں نے بڑی توجہ اور یقین کے ساتھ درودشریف پڑھ پڑھ کر بیوی پر دم کرنا شروع کردیا‘ تکلیف ختم ہوگئی‘ فاصلے سمٹ گئے‘ ہم جیسے ہی شہر کے قریب پہنچے بیوی نے بتایا کہ بچہ میرے قدموں میں پڑا ہے اور مجھے واپس گھر لے جاؤ میں نے کہا اللہ کی بندی اب آئے ہیں تو لیڈی ڈاکٹر کو دیکھا دیتے ہیں‘ میری اہلیہ نے اصرار کیا کہ نہیں اب ضرورت نہیں‘ گھر چلو‘ میں نے کہا کوئی بات نہیں بہتر ہے چیک اپ کروالیں‘ بہرحال ہسپتال پہنچے‘ انہوں نے تقریباً آدھ گھنٹہ بعد ہمیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔ اہلیہ کہنے لگی: میں نے کہا تھا نا کہ گھر چلیں! دس منٹ میں صفائی وغیرہ کرکے انہوں نے 1200 روپے لے لیے‘ میں نے کہا: اللہ نے ان کی روزی جو لکھی تھی وہ تو انہیں کسی نہ کسی طرح ملنی ہی تھی۔ قارئین! تو یہ ہے درودشریف کا کمال‘ اصل قصہ بتانے کا یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ بچے آپریشن سے ہی ہوا کریں گے مگر یہ بچی (درودشریف کی برکت سے) بغیر آپریشن کے ہوئی اور آسانی سے ہوئی۔
دو آیات قرضوں سے نجات
میں اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب میں رہتی ہوں‘ میرے شوہر پیشے کے لحاظ سے ایک موٹرمکینک ہیں اور ان کی سعودیہ میں اپنی ورکشاپ ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ حج کیا تھا تو میرے بچے چھوٹے تھے۔ میرے شوہر نے کہا کہ میری والدہ آئی ہوئی ہیں تم ان کے ساتھ حج کرلو‘ میں بچوں کو سنبھال لوں گا۔ ہم اس وقت بہت زیادہ قرض دار تھے‘ اس چیز کا مجھے بہت زیادہ احساس تھا کہ ہم قرض کیسے ادا کریں گے۔ کسی نے ہمیں ’’سورۂ آل عمران‘‘ کی آیت نمبر 26،27 صبح فجر میں سات بار اور مغرب میں سات بار‘‘ پڑھنے کیلئے کہا تو میں نے یہ عمل پڑھنا شروع کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور عقل آج تک دنگ ہے‘ ہوا کچھ یوں کہ کوئی سعودی دکان ختم کررہا تھا وہ میرے شوہر کے پاس آیا اور سپیئرپارٹ کا سامان انتہائی کم قیمت پر فروخت کرگیا اور میرے شوہر کے پاس رقم بھی کافی کم تھی تو اس نے کہا کہ باقی رقم میں آہستہ آہستہ بعد میں لے لوں گا‘ اس طرح اللہ پاک نے سبب بنایا اور ہماری دکان بھی بھر گئی اور کام میں بھی خوب برکت ہوئی‘ چند ماہ میں قرض بھی اتر گیا‘ میرے شوہر زکوٰۃ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور کام بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے بڑھا اور زکوٰۃ بھی زیادہ نکلنے لگی۔
میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مگر ان میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ بہت زیادہ شکی اور غصے والے تھے جو کہ میرے لیے بہت زیادہ پریشانی کا سبب تھا‘ پھر مجھے ایک کتاب ملی۔ اس میں ایک وظیفہ لکھا تھا کہ ’’صرف جمعہ والے دن 3125 مرتبہ یَاوَدُوْدُ اول و آخر ایک سو مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھیں‘ پھر ہر نماز کے بعد صرف 21 مرتبہ یَاوَدُوْدُ پڑھ کردم کریں اور اس شخص کو تصور میں لاکر دم کردیں‘‘ میں نے یہ وظیفہ کیا اور رو رو کر دعا کرتی تھی اور کچھ عرصہ ایک سال یا اس سے بھی کم تو میرے شوہر میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی‘ میں نے اور شدت سے پڑھ کر دعائیں کرنا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رحم کرم اور فضل کیا اور شوہر کا غصہ اور شک کم کیا ہوا ختم ہی ہوگیا۔
کئی اور خواتین کو یہی پریشانی تھی‘ میں نے ان کو بھی یہ بتایا جس نے بھی پابندی سے کیا ان کے حالات میں نمایاں تبدیلی آئی اور سال بعد ہی مجھے تبدیلی کے بارے میں بتایا۔ ایک سعودی لڑکی کو بھی بتایا پر اس نے پابندی سے نہیں کیا اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔جب میرے بچے بڑے ہوئے تو پڑھائی کا مسئلہ ہوا‘ یعنی آج سے سولہ سترہ سال پہلے تو سعودی عرب میں رہائش‘ گاڑی کے کام اور دیگر کاغذات ہمارے لیے مسئلہ بن گئے تھے۔
پریشانی کا حل:۔
پریشانی میں ایک ٹیچر نے مجھے یہ وظیفہ بتایا انہوں نے کہا کہ اگر یہ وظیفہ حرم کعبہ میں بیٹھ کر شروع کریں تو زبردست رہے گا۔ وظیفہ درج ذیل ہے:’’دو نفل حاجت پڑھنے کے بعد اول آخر گیارہ مرتبہ درود شریف پھر آیت کریمہ
36 مرتبہ‘ اور پھر سجدے میں گرگرا کر دعاکریں اور کام ہونے تک کریں‘ ہر روز ایک مقررہ وقت پر کریں‘ انہوں نے کیا تھا کہ جب تک کام نہ ہوجائے یہ وظیفہ آگے نہ بتائیں۔ میں نے یہ وظیفہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے راستے کھول دئیے۔ بچوں کی پڑھائی کے لیے ہر سال پاکستان جانے لگے اس سے پہلے یہ حال تھا کہ والدین سے ملنے ہم چھ سال بعد پاکستان گئے تھے‘ اب اللہ کے فضل سے ہر سال تین ماہ کی چھٹیاں سعودیہ میں گزار کر پاکستان جاتے ہیں۔ میرے شوہر بہت محنتی انسان ہیں‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے رزق حلال میسر ہے‘ مکینک ہیں ساتھ سپیئر پارٹس کاکام ہے‘ ان وظائف کی برکت سے اللہ نے خوب کرم کیا ہوا ہے۔ میں یہ درج بالا وظائف لوگوں کو سعودیہ میں اور پاکستان میں بھی اکثر بتاتی رہتی ہوں جو بھی یقین توجہ کے ساتھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بگڑے کام سنوار دیتا ہے اور جو لاپرواہی برتتے ہیں وہ اکثر شکایتیں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔
سورہ اخلاص کا جامع عمل
سورۂ اخلاص کا عمل:۔
دو رکعت نماز نفل پڑھیں اس کی ہر رکعت میں 101 بار سورۂ اخلاص پڑھیں دوران نفل ہاتھ میں تسبیح لے سکتے ہیں لیکن تسبیح صرف نوافل کیلئے ہے فرائض کیلئے نہیں۔ دو نفل پڑھنے کے بعد سجدے میں گرکے گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھیںپھر سجدے سے اٹھ کے گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھیں‘ پھر سجدے میں گرکے گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھیں‘ پھر سجدے سے اٹھ کے گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھیں۔ اسی طرح گیارہ سجدے کرنے ہیںاور ہر سجدے میں گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھنی ہے اور اٹھ کر بھی گیارہ دفعہ سورۂ اخلاص پڑھنی ہے۔ اس کے بعد گیارہ دفعہ کوئی سا بھی استغفار پڑھنا ہے اس کے بعد گیارہ دفعہ درود ابراہیمی پڑھنا ہے اور گیارہ منٹ کم از کم انتہائی زاری کے ساتھ اپنے مقصد کیلئے دعا کرنی ہے۔یہ عمل چند دن‘ چند ہفتے اور چند مہینے ضرور کریں۔پھر قدرت ربی کا کرشمہ دیکھیں‘ غیب کے خزانے ملیں‘ آپ کے مسائل‘ مشکلات حل اور دلی مرادیں پوری ہوں گی۔
سورہ الم نشرح کا فائدہ
کچھ عرصہ پہلے میری کمر میں چک پڑگئی اور پھر کمر کا بُرا حال ہوگیا‘ نہ میں ہل سکتی تھی‘ نہ کچھ کام کرسکتی تھی‘ انجکشن لگوائے لیکن کچھ نہ ہوا تو امی مجھے ہاسپٹل لے گئیں‘ وہاں اتنا رش تھا کہ بیان سے باہر‘ گرمی بھی اپنے جوبن پر تھی اور کمر کا درد الگ پریشان کررہا تھا‘ ہم لوگ ذرا لیٹ ہوگئے تھے‘ مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنا تھا‘ ان کے کمرے کے سامنے سینکڑوں مریض موجود تھے‘ اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے سورۂ الم نشرح پڑھنی شروع کردی ابھی بمشکل آٹھ یا دس بار ہی پڑھا ہوگا کہ بھائی نے مجھے آنے کا اشارہ کردیا اور ڈاکٹر کے روم کا جو خاکروب تھا اس نے مجھے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا تو بعد میں میں نے بھائی سے پوچھا کس کی سفارش کروائی؟ (اصل میں اس ہسپتال میں ہمارے گاؤں کے بہت سے لوگ ملازمت کرتے ہیں) تو بھائی نے بتایا کہ نہیں میں نے تو کسی کی سفارش نہیں کروائی‘ میں بس اس کے پاس گیا تھا کہ میری بہن کی کمر میں شدید درد ہے تو اس نے کہا یہاں سارے ہی مریض ہیں اور سب کو ہی شدید تکلیف ہے آپ کو اپنی باری پر ہی آنا ہوگا۔ تو میں چپ کرکے واپس آگیا۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد اس نے خود ہی مجھے بلالیا کہ اپنی مریضہ کو لے آؤ‘ اور یہ پانچ منٹ وہی تھے جس میں میں نے سورۂ الم نشرح پڑھنا شروع کی تھی۔
شاہ ارشاد صابری کے روحانی وظائف
اگر کوئی شخص اس شبہ میں مبتلا ہو کہ اس پر کسی نے سحر یا جادو کیا ہے یا اس کی روزی باندھ دی گئی ہے یا لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے کنارہ کش رہتے ہیں تو ان تمام کاموں میں بہتری لانے اور کامیاب ہونے کیلئے سورۂ یٰسین شریف کو مبین در مبین پڑھے
چور اور ہر موذی جانور سے حفاظت:اگر کسی جگہ چوری ڈاکے کا ڈر ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں موذی جانور (تکلیف دینے والے جانور مثلاً سانپ بچھو‘ کھن کھجورے یا دیگر جانور) ہوں تو ان چور ‘ ڈاکو یاموذی جانوروںسے حفاظت کیلئے اول و آخر تین تین بار درودشریف پڑھے درمیان میںسورۂ بقرہ کی آیات 85 اور86 پڑھیں اور سورہے‘ یہ آیات پڑھنے کے بعد کسی سے بات نہ کرے۔ اگر بات کرنی پڑجائے تو دوبارہ پڑھ لے اور سوجائے۔
نقصان پہنچانے والوں سے حفاظت:اگر کسی شخص کو ڈر ہو کہ اس کا دشمن اسے بڑا نقصان پہنچادے گا تو اس کیلئے بعد نمازعشاء باوضو قبلہ کی طرف منہ کرکے پاک مصلے پر بیٹھ کر اسم الٰہی یَاجَبَّارُ ایک سو اکیس بار پڑھے اور یہ عمل اس وقت تک کرتا رہے جب تک دشمن کے نقصان پہنچانے کا خطرہ ہو‘ ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی نقصان پہنچانے والا ناکام ہوکر اپنی حرکات سے باز آجائے گا۔
سحرو جادو سے نجات‘ روزی میں برکت‘ مخلوق تابع
اگر کوئی شخص اس شبہ میں مبتلا ہو کہ اس پر کسی نے سحر یا جادو کیا ہے یا اس کی روزی باندھ دی گئی ہے یا لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے کنارہ کش رہتے ہیں تو ان تمام کاموں میں بہتری لانے اور کامیاب ہونے کیلئے سورۂ یٰسین شریف کو مبین در مبین پڑھے اس کے اول و آخر درودشریف گیارہ گیارہ بار پڑھے۔ یہ عمل ہمیشہ کرے ناغہ نہ کرے۔ مسلسل پڑھنے اور عمل کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ سحر، جادو، سفلی، رزق کی بندش ختم ہوگی۔ لوگ محبت اور عزت سے پیش آئیں گے اور ہر کام سہولت اور آسانی کے ساتھ انجام پائے گا۔ گھر میں خوب خیرو برکت شروع ہوجائے گی۔ سورۂ یٰسین شریف کو مبین در مبین پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب سورۂ یٰسین شریف اول مبین تک پڑھ چکے تو پھر اول سے شروع کرے یعنی دوبارہ شروع سے پڑھنا شروع کرے اور دوسرے مبین تک پڑھے پھر اول پڑھنا شروع کرے۔ جب چوتھے مبین پر پہنچے تو پھراول سےپڑھنا شروع کرے۔ جب پانچویں مبین پر پہنچے تو پھر اول سے شروع کرے۔ جب چھٹے مبین پر پہنچے تو پھر اول سے شروع کرے۔ جب ساتویں مبین پر پہنچے تو آخر تک پڑھ کر سورۂ ختم کرے لوٹ کر اول سے آخر تک پڑھے۔ اس ترکیب سے روزانہ سورۂ یٰسین شریف کو پڑھا کرے۔ یہ عمل ہر مقصد میں کامیابی کے لیے بھی اور ہر بیماری سے شفاء کے لیے بھی تیربہدف ہے۔
حافظہ مضبوط یادداشت اچھی:اگر کسی بچے یا بڑے کا حافظہ کمزور ہو اورجو کچھ پڑھتا ہو‘ بھول جاتا ہو اسی لیے تعلیم میں بھی پیچھے ہو اور بڑا آدمی ہے اس کا حافظہ بھی کمزور ہے چیز رکھ کر بھول جاتا ہے کوئی بات یاد نہیں رہتی‘ بازار سے سودا خریدنے گیا اوربھول گیا کہ کیا کیا لینا تھا جو لینا نہیں تھا وہ خرید لایا ایسی صورت میں یہ نماز گھر کاکوئی فرد ادا کرکے حافظہ کی قوت کے لیے دعا کرے اور سورۂ یٰسین ایک مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کرکے اس بچے یا آدمی کو پلائے۔ یہ عمل ایک چلہ کرے۔ ان شاء اللہ حافظہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ بچے میں پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا اور وہ اپنے ہم جماعت بچوں سے آگے رہے گا اور تعلیم میں نام پیدا کرے گا۔
لقوہ‘ فالج‘ دردکمر‘ گیس ‘ درد کان کیلئے:اگر خدانخواستہ کسی کو لقوہ کا مرض ہوجائے یا قولنج (انتڑی کا درد‘ باؤسول) یا باؤ گولہ (گیس) یا دردِکمر پیدا ہوجائے تو اس کیلئے باوضو سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ شریف کے ایک چینی کی پلیٹ بغیر پھول والی پر لکھے اور سرسوں کے تیل سے دھو کر ایک بوتل میں وہ تیل رکھ لے اور تھوڑا سا تیل لے کر جہاں جسم میں درد ہو لگایا کرے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی آرام آجائے گا۔ اگر کسی بچے کے یا بڑے کے کان میں درد ہو تو اس میں ہلکا گرم کرکے ڈال دے۔ تنبیہ: یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کان میں جو بھی تیل وغیرہ ڈالنا ہو اسے ہلکا گرم کرلیں۔ ٹھنڈے تیل سے کان کو نقصان پہنچتا ہے۔
نظر بد سے حفاظت و نجات:اگر کسی بچے یا بڑے کو نظربد لگی ہو جس کے سبب اس کی صحت گرتی جارہی ہو کھانا کھانے کو دل نہ چاہتا ہو اور مرض بڑھتا جاتا ہو لیکن مرض کا پتہ نہ چلتا ہو۔ بچہ ہے تو ہر وقت کسی نہ کسی بہانےسے روتا ہو کھانا پینا بند ہوگیا ہو یا کھاتا ہو تو الٹی ہوجاتی ہو‘ اس سے نجات کیلئے مندرجہ ذیل کلمات باوضو ایک کاغذ پر یا چینی کی پلیٹ پر لکھیں اور اس کو پانی سے دھو کر مریض کو پلائیں اور اس پر چھڑکیں نیز یہی کلمات پڑھ کر صبح و شام مریض پر دم کریں اور یہی کلمات ایک کاغذ پر لکھ کر موم جامہ کرکے گلے میں ڈال دیں‘ تعویذ پر کالا یا گہرا نیلا کپڑا چڑھائیں۔ وہ کلمات یہ ہیں:۔
سفر میں ہر قسم کے خطرات سے حفاظت:اگر کوئی شخص سفر پر روانہ ہونا چاہتا ہے یا سفر پر روانہ ہوچکا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں راستے میں کوئی حادثہ پیش نہ اجائے یا ڈاکو لٹیروں سے واسطہ نہ پڑجائے تو اس کیلئے گھر سے نکلنے سے پہلے یا دورانِ سفر سورۂ عبس مکمل ایک مرتبہ پڑھ لی جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ سفر بخیرو خوبی پورا ہوگا اور راستہ میں کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہ ہوگا۔
عبقری سے طوائف کی زندگی بدل گئی
جب میں بہت چھوٹی تھی اس وقت میں لاہور یا دوسرے شہروں میں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھی‘ کام کرتے ہوئے کوئی برتن جیسے شیشے کا گلاس یا کپ وغیرہ اگر کبھی ٹوٹ جاتا تو بہت سخت سرزنش کی جاتی اور ساتھ ساتھ مار بھی پڑتی تھی‘ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں برتن دھو رہی تھی کہ مجھ سے ایک شیشے کا گلاس ٹوٹ گیا پھر کیا تھا کہ میری شامت آگئی ایک زناٹے دار تھپڑ جب میرے سفید چمڑے پر پڑتا تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آجاتا تھا اور سوائے رونے دھونے کے میں کر بھی کیا سکتی تھی؟ اس کے بعد میرے والدین کو جب پتہ چلا تو انہوں نے مجھے واپس بلالیا۔میں نے پرائمری تعلیم بھی حاصل کی تھی اور گھر میں اپنی والدہ سے قرآن پاک ناظرہ کا چند سپارے بھی پڑھے تھے۔ اس کے بعد مجھے مانگنے پر لگا دیا گیا‘ ہم تین سے چار بچے ہوتے تھے اور ہماری ڈیوٹی ہوتی تھی کہ سارا دن شہر کے لاری اڈوں اور بسوں میں جاکر مانگنا ہے اس کام سے ہمارا اچھا خاصا گزارہ ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد فوت ہوگئے اور اس کے دو سال بعد والدہ بھی وفات پاگئیں۔پھر میں بُرے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی‘ چند سال کے بعد ہی میں ایک مکمل طوائف بن چکی تھی‘ ایک مرتبہ میں ایک چھوٹے سے شہر میں ایک کرائے کے گھر میں رہتی تھی اور میرا ’’دھندا‘‘ عروج پر تھا‘ تو اس علاقہ کے معزز افراد نے ہم سے مکان خالی کروالیا‘ اس کے بعد شہر کی دوسری جگہ پر مزید دو سال رہے‘ پھر جب ان کو ہمارے ’’کاروبار‘‘ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے بھی ہم سے گھر خالی کروا لیا۔ پھر ایک اور چھوٹے سے شہر میں جاکر رہائش اختیار کی‘ جب وہاں کے لوگوں کو ہمارے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے ہمیں ایک تانگے پر بٹھا کر اور ہمارے منہ کالے کرکے سارے شہر کا چکر لگوایا۔ اس کے بعد ہم ایک اور شہر میں آگئے‘ وہاں پر ہمیں علاقے کے ’’معززین‘‘ کا تحفظ حاصل تھا‘ بڑے بڑے عہدوں والے ہمارے پاس آتے‘ پھر کچھ عرصہ بعد ہم نے پھر شہر تبدیل کرلیا‘ یہاں پر آکر بھی ہم
نے ’’پہلے والی‘‘ زندگی گزارنا شروع کردی۔ طوائف زادیوں میں میرا ایک مقام تھا‘ ایک نام تھا‘ مجھے دیکھ کر طوائفیں رشک کرتی تھیں‘ میرے پاس بڑے بڑے امراء آتے اور میری ایک جھلک دیکھنے کو منہ مانگی رقم دی جاتی۔ اس شہر میں بھی میں چند سال رہی پھر پاکستان کے ایک بڑے شہر میں آگئے۔ یہاں بھی چند ماہ کے اندر اندر میری دھوم پورے شہر میں پھیل گئی‘ میرے حسن کا چرچا ہونے لگا‘ لوگ میری قیمت لگاتے اور منہ مانگے پیسے دیتے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے‘ بنگلوں والے میری جھڑکیاں تک سہہ جاتے۔ حتیٰ کہ میں بعض اوقات گالیاں نکالتی وہ بھی برداشت کرتے حتیٰ کہ جن کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھ سکتا تھا میں ان سے شدید بدتمیزی کرتی اور وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ پورے بازار میں میری دھوم تھی۔ مجھے خود پر فخر تھا‘ ناز تھا‘ مجھ میں حسن کی وجہ سے اکڑ تھی‘ طوائفیں میری شہرت دیکھ کر مجھے دور سے دیکھتیں اور ٹھنڈی آہیں بھرتیں۔ میرے پاس اکثر ایک شخص آتا تھا‘ وہ آتا مجھ سے چار باتیں کرتا اور چلا جاتا‘ ایک دن آیا تو اپنی فائل (جان بوجھ کر) بھول گیا‘ میں اپنے بستر پر لیٹی بے فکری سے اس کی فائل ٹٹول رہی تھی تو اس میں سے ایک میگزین میرے بستر پر گرا‘ جب میں نے پکڑ کر ٹائٹل دیکھا تو اس پر ’’ماہنامہ عبقری لاہور‘‘ لکھا ہوا تھا‘ اور اس رسالے کو کھولا تو اس میں سے ایک چھوٹا سا کتابچہ ’’دو انمول خزانہ‘‘ ملا۔ خیر میں نے عبقری میگزین کو پڑھنا شروع کیا‘ بس پڑھتی گئی اور زمین میں دھنستی چلی گئی‘ میرے منہ سے نکلا ’’اُف خدایا یہ کیا ہے؟‘‘ ’’اور میں کیا ہوں؟‘‘ دو انمول خزانہ کتابچہ پڑھا‘ تعارف پڑھا‘ اس میں موجود واقعات پڑھنے کے بعد دوانمول خزانہ نمبر دو جب چند بار پڑھا تو مجھے اپنے وجود سے لباس سے‘ بستر سے‘ نفرت سی ہونے لگی۔ میں نے اپنی خادمہ کو بلایا‘ نئے کپڑوں کا بندوبست کروایا‘ غسل کیا اور ایک کونے میں بیٹھ کر سارا میگزین پڑھا‘ دوانمول خزانہ کتابچہ بار بار پڑھا۔ خادم بھیج کر مارکیٹ سے گزشتہ شمارے منگوائے‘ پڑھتی گئی اور دل بدلتا گیا۔ میں نے چند دن بعد اپنی خادمائیں اور خادمین بلائے اور سب کو کہا کہ ’’ہم اس کام سے توبہ کررہے ہیں‘ ہم یہ کوٹھا چھوڑ رہے ہیں‘‘ آپ کسی اور کو یہاں لاکر بٹھالیں‘ سب نے مجھے بہت روکا‘ بہت مجھ پر ہنسے‘ بعض نے کہا روٹی کو ترسو گی‘ اتنی عزت شہرت کو لات مار کر جارہی ہو مگر میں نہ مانی اور سب کچھ چھوڑ کر اسی شہر میں ایک چھوٹے سے قصبے میں کرائے کا مکان لے کر رہنے لگی۔ چند دن بعد میرا ایک پرانا ملنے والا پوچھتا پوچھاتا میرے گھر آگیا اور آکر کہا کہ مجھے جب تمہاری توبہ کا پتہ چلا تو بہت خوشی ہوئی‘ میری بیوی مجھے چھوڑ کر جاچکی ہے تم مجھ سے نکاح کرلو اور پاک صاف زندگی کا آغاز کرتے ہیں‘ میں اس کی بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اللہ نے مخلص بھیج دیا کیونکہ انمول خزانہ اور عبقری رسالہ پڑھنے کے بعد میری ایک ہی خواہش تھی کہ اے کاش جیسے دوسرے لوگوں کا گھر ہوتا ہے میرا بھی گھر ہو۔ میں نےبخوشی ہاں کردی‘ چند دن بعد ہی ہمارا نکاح ہوگیا۔ کچھ عرصہ تو میرے ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہا اور ایک دن اس نے کہا کہ ہم عمرہ کرنے جارہے ہیں‘ میں خوشی سے پھولی نہ سمائی‘ بار بار سجدے میں گرتی کہ یااللہ تیراشکر ہے تو نے میری توبہ قبول فرمائی اور مجھے اپنے اور اپنے حبیب ﷺ کے در پر بلالیا۔ جب ہم سعودیہ پہنچے تو میرےشوہر نے مجھے ایک سعودی شخص کے ہاتھوں بہت بھاری قیمت پر فروخت کردیا‘ مجھ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے‘ اس شخص نے طلاق میرے ہاتھ پر رکھی اور ایئرپورٹ روانہ ہوگیا۔ میں مرتی کیا نہ کرتی؟ وہ شخص مجھے سعودی عرب کے شہر ریاض لے گیا اور ایک علیحدہ فلیٹ میں رکھا‘ رو رو کر اللہ سے مانگتی کہ یااللہ مجھے اس گندگی سے نکال لے‘ تجھے اس پاک دھرتی کا واسطہ جہاں تو مجھے لے آیا اب یہاں کی برکت سے مجھے گندگی سے نکال لے۔ وہ سعودی شخص آتا‘ میرے پاس بیٹھتا‘ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور اشاروں میں میرے ساتھ بات کرتا‘ مگر میرے قریب آنے کی کوشش تک نہ کرتا۔ میں حیران تھی کہ اس نے مجھے ہاتھ تک نہ لگایا‘ ٹھیک چار ماہ کے بعد اس نے مجھ سے نکاح کروالیا اور فلیٹ سے نکال کر علیحدہ مکان لے کر دیا‘ پھر مجھے پتہ چلا کہ اس کی مجھ سے پہلے بھی دو بیویاں ہیں اور تیسری میں ہوں‘ وہ معاشی طور پر ٹھیک ٹھاک تھا‘ اس کے اپنے کارخانے اور کاروبار تھے‘ اس کی بیٹیاں اور بیٹے بھی تھے۔ مجھے اپنے سارے خاندان سے ملوایا‘ چند ماہ کے بعد ہی میں ان کے خاندان میں رچ بس گئی‘ اس کے بیٹے اور بیٹیاں میری بہت زیادہ عزت کرتے ہیں‘میرا شوہر بہت خیال رکھنے والا ہے‘ ہر سال مجھے عمرہ اور حج کرواتا ہے‘ میں سعودیہ میں بھی بذریعہ انٹرنیٹ درس اور عبقری رسالہ پڑھتی ہوں‘ میرے پاس آج عزت ‘ بے پناہ دولت ہے‘ کسی چیز کی کوئی کمی نہیں‘ زبان پرانمول خزانہ نمبر دو جاری رہتا ہے۔ وہ شمارہ عبقری اور دو انمول خزانہ کتابچہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
شوق اور کامیابی
استاد یوسف دہلوی(۱۹۷۷)مشہور خوشنویس تھے۔ان کو فنِ خطاطی پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار ریت کے میدان پرجعلی خط کا مقابلہ ہوا۔استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بانس کا بڑا ٹکڑا تھا۔انہوں نے بانس سے ریت پہ لکھنا شروع کیا الف سے ش تک پہنچےایک فرلانگ کا فاصلہ ہو گیا۔لوگوں نے کہا بس کیجئے۔استاد یوسف نے کہا میں نے جو لکھا اس میں رنگ بھر دو اور پھر ہوائی جہاز سے اس کی چھوٹے سائز میں فوٹو لےلو،مجھے یقین ہے کہ فوٹو میں وہی خط رہے گاجو میرا اصل خط ہے۔اس کے بعد کسی اورکو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔وہاں ماہ مسعود کی آمدپر ان کو ایک محراب کا مضمون لکھنے کے لئے دیا گیا۔استقبال کی تیاریوں کا بچشم معائنہ کرنے کے گورنر جنرل آئے۔ اس دوران انہوں نےاستاد یوسف کا لکھا ہوا محراب بھی دیکھا۔اس شان خط کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔انہوں نے کہا یہ کس خطاط نے لکھا ہے،چناچہ استادیوسف کوبلایاگیا۔گورنر جنرل نے ان کے کام کی تعریف کی اور پوچھاکہ اس کو لکھنے میں آپ کا کتناوقت لگا۔استاد یوسف نے کہا سات دن۔گورنر جنرل نے فورا اپنے سیکرٹری کوحکم دیا کہ استاد کو ان کی خدمت کے اعتراف میں سات ہزار روپے پیش کرو ۔چنانچہ اسی وقت ان کو اتنی بڑی رقم کا چیک دے دیا گیا۔استاد یوسف سے کسی شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا!انہوں نے کہاکسی سے نہیں۔ان کے والدایک مشہور خوش نویس تھے۔مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی بھی نہیں کی۔پوچھے پرانہوں نے بتایا کہ خوش نویسی کا فن میں نے لال قلعے سے سیکھا ہے۔لال قلعہ میں مغل دورکے استادوں کی وصلیاں (تختیاں)رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیںجوفنِ خطاطی کے شاہکار نمونے ہیں۔استاد یوسف دس سال تک برابر یہ کرتے رہےکہ لال قلعہ جاکر ان تختیوں کو دیکھے۔ہر روزایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے۔اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتےاور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کے لال قلعہ جاتے۔وہاں کی مخفوظ تختی سے اپنے لکھےکو ملاتےاوراپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔اس طرح مسلسل دس سال تک ہر روزلال قلعہ کی قطعات کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہےاور ان کو دیکھ دیکھ کر مشق کرتے رہے۔ یہی جدوجہد تھی کہ جس نے انہیں استاد یوسف بنادیا۔ اگر آدمی کے اندر شوق ہو تو نہ پیسے کی ضرورت ہے نہ استاد کی، نہ کسی اور چیز کی۔ اس کا شوق ہی اس لئے ہر چیز کا بدل بن جائے گا۔وہ بغیر کسی چیز کے سب حاصل کر لےگا۔
عجب مسائل اور حل
عجب مسائل:۔
دائیں کان میں پھڑپھڑاہٹ‘ مخصوص آواز کا رات کو نیند سے جگا دینا‘ بالوں میں دائیں طرف خارش جیسے بڑا کیڑا چل رہا ہوں‘ جسم لاغر‘ جان ختم‘ بال اور دانت خراب‘ منہ اندر سے خراب ہوگیا ہے۔ میکے اور سسرال میں جھگڑے‘ اپنے پرائے ہوگئے ہیں۔ اس سب کیلئے کوئی خصوصی وظیفہ عنایت فرمائیں۔ اس کے علاوہ والدہ کی طبیعت بہت خراب‘ اکثر جھٹکے لگتے ہیں‘ ہروقت گھبراہٹ اور ڈر رہتا ہے۔
جواب:۔
آپ اور آپ کی والدہ سورۂ مومنون کی آخری چار آیات اور اذان سات سات مرتبہ اول وآخر تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ ہر گھنٹے بعد پڑھ کر اپنے دونوں کانوں پر دم کریں۔ساتھ جو پانی پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں اس پر دم کریں اور سارا گھر وہ پانی پیے۔ناغہ کے دنوں میں یہ عمل نہ کریں۔ آپ کی طرف سے کوئی اور گھر کا فرد کرسکتا ہے۔
جواب:۔
آپ اور آپ کی والدہ سورۂ مومنون کی آخری چار آیات اور اذان سات سات مرتبہ اول وآخر تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ ہر گھنٹے بعد پڑھ کر اپنے دونوں کانوں پر دم کریں۔ساتھ جو پانی پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں اس پر دم کریں اور سارا گھر وہ پانی پیے۔ناغہ کے دنوں میں یہ عمل نہ کریں۔ آپ کی طرف سے کوئی اور گھر کا فرد کرسکتا ہے۔
فائدہ دینے والا علم
پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم وہ سیکھیں جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں نفع دے۔اسی باب میں پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا ہے کہ ’’وہ لوگ وہ ہیں جو ایسے علوم سیکھتے ہیں جو انہیں کوئی نقصان تو دیتے ہیںمگر نفع نہیں دیتے‘‘ اب سوچنے کی بات ہے کہ علم نفع نہیں دیتے!غیر مفید علم کی مذمت: پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مزیدفرماتے ہیں کہ ایسے غیر مفید علم کی انہوں نے مذمت فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ آگے انہوں نے حضور پاکﷺ کی حدیث بیان فرمائی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’اے اللہ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو مجھے نفع نہ دے۔‘‘ پس تھوڑے علم کی مدد سے بہت سا عمل کرنا اور ضروری ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو کیونکہ رسولﷺ نے فرمایا کہ عابد علم دین کے جانے بغیر خراص کے گدھے جیسا ہے۔ خراص چکی، کولہو والے کو کہتے ہیں ۔ اسکے پاس علم نہیں ہے صرف عبادت ہے وہ اسی کی طرح ہے اور سرورِکونین ﷺ نے بے علم عابدوں کو خراص کے گدھے سے مشابہ فرمایا۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ وہ کتنا ہی گھومے اپنے پہلے ہی قدم پر رہتا ہے ، آگے کا فاصلہ طے نہیں کر سکتا۔ اب پیر علی ہجویری اپنا مشاہدہ بیان فرمارہے ہیں کہ’’میں نے عوام الناس کا ایک گروہ دیکھا ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتے ہیں اور دوسرا گروہ عمل کو علم پر لیکن یہ دونوں امر باطل ہیں۔ اس لیے کہ علم کے بغیر عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب علم اسکے ساتھ شامل ہواور علم بھی وہ جو صحیح علم ہو۔
قرآن پاک کو اہل علم سے پڑھنا....!
دیکھیں !آج ایک عجیب بات چلی ہے اور مجھے کئی لوگ بتاتے ہیں کہ ہم ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ میں کئی لوگوں کو روک دیتا ہوں کہ مت پڑھو۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ ترجمے کے ساتھ قرآن پاک سے روکتاہے..... !بھئی میں ترجمے کے ساتھ قرآن پاک سے نہیں روکتا ،اسکو ضرور پڑھنا چائیے لیکن کسی سے پڑھنا چاہیے ایک بات..... اور دوسری بات یہ ہے کہ کس کا ترجمہ پڑھنا چاہئے۔ آپ دنیا کی تاریخ میں ایک چیز اٹھا کر دیکھیں اور حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی یادداشتوں میں ایک بات ملتی ہے، عجیب بات لکھی ہے۔ فرمایا کہ میں نے دنیا کے ایسے لوگ دیکھے جن کے پاس علم کے سمندر تھے لیکن اس سمندر میں لوگ ڈوب گئے پار نہ اتر سکے کہ اس علم کی وجہ سے وہ گمراہ ہو گئے۔ خود قرآن کہتا ہے ’’یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا ‘‘اس قرآن کو پڑھ کے بہت سے لوگ ہدایت پا جائیں گے اور بہت سے گمراہ ہو جائیں گے۔ خدا جانے قرآن سے بھی کوئی گمراہ ہو سکتا ہے۔ نہیں ہو سکتا، قرآن راہ ہدایت ہے۔ لیکن قرآن خود فرما رہا۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ سمجھنے کی بات ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن تو سراپا ہدایت ہے۔ قرآن تو نور ہدایت ہے لیکن اس سے گمراہ وہ ہوتے ہیں جو اسکو اپنے مزاج سے ،اپنی سمجھ سے، بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ قرآن سے لے کر حدیث، حدیث سے لے کر فقہ، فقہ سے لے کر تفسیر، تفسیر سے لے کر سوانح،ملفوظات و معقولات کسی اللہ والے کی یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان خود نہ پڑھے بلکہ کسی سے پڑھے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)